• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم جب گورنمنٹ سنٹرل ماڈل ہائی اسکول لوئر مال اور گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) میں زیر تعلیم تھے، تواکثر لاہور کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں کی سیر کو جاتے تھے اور گھنٹوں وہاں پر اسٹیم انجن (بھاپ والے انجن)، ڈیزل انجن اور الیکٹرک گاڑیوں کا نظارہ کیا کرتے تھے۔ کیا خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہوا کرتے تھے۔ الیکٹرک گاڑیوں کا جو ہم نےحشر کیا وہ بھی ایک تاریخ ہے، لاہور سے خانیوال تک یہ گاڑی چلائی گئی تھی۔ یہ الیکٹرک ٹرین 2007میں بند کر دی گئی تھی اور اس کی کروڑوں روپے کی الیکٹرک کیبل چوری کر لی گئی۔ اس پر بھی کبھی بات کریں گے۔ ہم نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ ہم میاں میر ریلوے اسٹیشن، اس کے بعد والٹن ریلوے اسٹیشن اور کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن کو لاہور کی 42سینٹی گریڈکی شدید گرمی میںدیکھنے چلے گئے۔ کسی زمانے میں مغل پورہ ریلوے اسٹیشن کو بھی میاں میر ریلوے اسٹیشن کا نام دیا گیا تھا۔ اور پھر میاں میر پل اور شیر پائو پل کے نیچے واقع ریلوے اسٹیشن کو میاں میر اسٹیشن کا نام دیا گیا تھا۔ اب اسے لاہور کینٹ اسٹیشن کہا جاتا ہے۔ میاں میر ریلوے اسٹیشن پر جا کر ہمیںیہ احساس ہوا کہ ہم 1885کے زمانے میں آ گئے ہیں۔ انتہائی خاموشی، ریلوے اسٹیشن کی تاریخی عمارت اور ایک لائن پر بہت بڑا اسٹیم انجن کھڑا تھا جس کو لوگ کبھی کوئلے والا انجن بھی کہتے تھے چونکہ اس کے اندر پتھر کا کوئلہ بھی ڈالا جاتا تھا، پھر تیل اور پانی کو ملا کر بھی کوئی ٹیکنالوجی شروع کی گئی تھی۔ اس انجن کے ساتھ مال گاڑی کے بےشمار ڈبے لگائے گئے تھے۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ لاہور میں آج بھی اسٹیم انجن چل رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہمارا گھر ٹیپ روڈ اور ریٹی گن روڈ بالمقابل گھوڑا اسپتال ہوتا تھا تو بادامی باغ کے ریلوے اسٹیشن سے اسٹیم انجن، انجن کی وِسل کی آواز اور چھک چھک کی آوازیں آیا کرتی تھیں اور اگر گھر کی چھت پر کھڑے ہو جاتے تو ہمیں دور سے گاڑیاں نظر آتی تھیں۔ کتنا صاف ستھرا لاہور تھا۔ دریا ئےراوی بھی ہمارے گھر کی چھت سے نظر آیا کرتا تھا۔ کیا منظر ہوا کرتاتھا۔ چاندنی راتوں میں لوگ راوی پر کشتی رانی کرنے جایا کرتے تھے۔ ہم خود بھی کبھی جایا کرتے تھے۔ ہیر رانجھا کی ہیروئن اداکارہ فردوس کو ہم نے خود راوی دریا پر اتوار کے روز برقعہ پہن کر کئی مرتبہ کشتی چلاتے دیکھا تھا کیونکہ ہم بھی اکثر اتوار کو جاتے تھے یاپھر اسکول سے پھُٹ کر دریا پر جایا کرتے تھے۔ روزنامہ جنگ لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نصرت فتح علی خان کا آخری لائیو شو کامران کی بارہ دری پر منعقد کروایااور جنگ ہی نے لاہور میں گورنمنٹ وکٹوریہ گرلز ہائی اسکول (مہاراجہ نونہال سنگھ کی حویلی) میں بسنت کو ایک نئے انداز میں منانے کی روایت ڈالی۔ یہ مرکزی خیال جناب میر شکیل الرحمٰن صاحب اور سرمد علی صاحب کا تھا اور ہم نے اس اسکول میں بسنت منانے کا اجازت نامہ لے کر دیا تھا۔ اس کے بعد بسنت کا تہوار بڑا مقبول ہوا تھا۔ پھر حویلی دھیان سنگھ (اب وہاں گرلز کالج ہے) کبھی ہم نےوہاں بطوروزیٹنگ استاد کے پڑھایا بھی ہے۔ وہاں بھی بسنت بڑے خوبصورت انداز میں منانے کی روایت ڈالی گئی ۔ وہاں پر بھی ہم نے بسنت منانے کی اجازت لے کر دی تھی۔ یہ تو بعد میںڈور بنانے والوں نے اس تہوار کا بیڑہ غرق کر دیا۔

لیں جناب میاں میر اسٹیشن پر کھڑے پہلے تو ہم یہ سمجھے کہ یہ اسٹیم انجن مال گاڑی کو لے کر آیا ہے مگر اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ جناب یہ تو اب نمائشی انجن رہ گیا ہے۔ البتہ ابھی اس کو چلایا جا سکتا ہے۔ ابھی یہ اچھی حالت میں ہے۔ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر ظفر کا کمرہ سو برس پرانا تھا۔ سو برس قدیم مینوئل آلات آج بھی کام کر رہے ہیں۔ آج بھی لاہور میں کانٹا تبدیل کرنے کا روایتی مینوئل سسٹم کام کر رہا ہے۔ ریلوے والے اب الیکٹرانک سسٹم لا رہے ہیں، یعنی جو بجلی سے چلے گا اورکیبن میں اپنے کمرے سے بٹن دبا کر بجلی کی مدد سے کانٹا تبدیل کرے گا۔

ارے بھائی ملک میں پہلے ہی لوڈشیڈنگ ہے۔ اگر کانٹا تبدیل کرتے وقت بجلی چلی گئی اور اوپر سے ٹرین آگئی تو پھر حادثہ ہونے کے امکانات کس قدر بڑھ جائیں گے، آپ جنریٹر لگا لیں یا پھر یو پی ایس یا سولر سسٹم لگا لیں، ان سب میں کسی بھی وقت خرابی آ سکتی ہے جبکہ مینوئل سسٹم صدیوں سے کام کر رہا ہے۔ اس کے لیور گوروں نے بنائے تھے۔ یہ سسٹم گوروں نے بنایا تھا، یہ سسٹم خراب نہیں ہوتا۔ یہاں پر ریلوے اسٹیشن پر کبھی میاں میر پل اور شیرپائو پل نہیں ہوتا تھا، کیا خوبصورت منظر ہو گا۔ اس اسٹیشن پر کھڑا اسٹیم انجن آج بھی کام کر سکتا ہے اور اس کی حالت بہت اچھی ہے۔ جب یہ ریلوے اسٹیشن گوروں نے بنایا تھا تب بھی یہاں آٹھ لائنیں تھیں اور آج بھی آٹھ لائنیں ہیں۔ پچاس برس قبل ہم نے یہ اسٹیشن دیکھا تھا۔ آج بھی ویسا ہی ہے البتہ عمارت کچھ زیادہ خستہ حال ہو چکی ہے۔ اگر تھوڑی سی مرمت کرائی جائے تو یہ مزید سو برس تک چل سکتی ہے۔ ہماراخیال تھا کہ میاں میرریلوے اسٹیشن پرکوئی سن / کوئی تاریخ / کوئی ہسٹری لکھی ہو گی مگر بڑی دیر تک تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہ ملا۔

ہم یہاں سے والٹن ریلوے اسٹیشن چلے گئے جو اس کے بہت قریب ہے جس زمانےمیں ہم نے یہ والٹن ریلوے اسٹیشن اور والٹن ریلوے ٹریننگ سکول دیکھا تھا اس وقت یہ علاقہ ایک جنگل کا سماں پیش کرتا تھا۔ ویسے آج بھی سول سروسز اکیڈمی کی دیوار کے ساتھ بڑا جنگل ہے جو والٹن گیریژن کے پاس ہے والٹن گیریژن کا علاقہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ عزیز قارئین ! یقین کریں کہ یہاں پر کینٹ (لاہور کینٹ) اور والٹن کینٹ کے علاقے اتنے وسیع اور بڑے ہیں کہ اصل لاہور یعنی تیرہ دروازے اور ان کا علاقہ اس کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ والٹن اسٹیشن کی عمارت بھی خستہ ہو رہی ہے۔ اس کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے تو اصل اور قدیم عمارت کے اب صرف دو ہی کمرے رہ گئے ہیں۔ یہ ریلوے اسٹیشن 1925میں بنایا گیا تھا۔ اس کو 96برس ہو چکے ہیں۔ حقیقت میں دوستو اس والٹن ریلوے اسٹیشن کو دیکھنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین