آزاد جمّوں و کشمیر 10 اضلاع پر مشتمل ایک آزاد ریاست ہے۔ یہاں حکومت کا قیام 24اکتوبر1947ء کوسردار محمّد ابراہیم خان کی سربراہی میں عمل میں آیا۔ 13 ہزار مربع کلو میٹر سے زاید رقبے پر مشتمل اس آزاد خطّے کا ایک بڑا حصّہ مقامی باشندوں نے تقسیمِ ہند 1947ء کے موقعے پر ڈوگرہ افواج کا مقابلہ کرکے آزاد کروایا تھا۔ عصرِ حاضر میں آزاد کشمیر کی اپنی قانون ساز اسمبلی ، سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن، جھنڈا ، صدر اور وزیر اعظم ہیںاور یہاں 1974ء کا عبوری آئین نافذالعمل ہے۔ البتہ، خارجی ودفاعی اُمور کے لیے یہ ریاست پاکستان کے تابع ہے۔ 1949ء کے معاہدۂ کراچی کے مطابق، جو پاکستان، کشمیر کی آزاد حکومت اور آل جمّوں و کشمیر مسلم کانفرنس کے درمیان ہوا تھا، یہ محکمے پاکستان کو تفویض کیے گئے۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق آزاد جمّوں و کشمیر کی آبادی 40 لاکھ سے زاید ہے۔
یہاں کے الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2021ء کے لیے رجسٹرڈ رائے دہندگان کے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان کے مطابق اس وقت آزاد کشمیر میں کُل رجسٹرڈ رائے دہندگان کی تعداد28 لاکھ سے زاید ہے، جن میں 15 لاکھ سے زاید مرد اور 13لاکھ کے قریب خواتین ہیں۔ علاوہ ازیں، آزاد جمّوں و کشمیر کے الیکشن کمیشن میں مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے وہ مہاجرین بھی بطور رائے دہندگان رجسٹرڈ ہیں، جو اس وقت پاکستان میں مقیم ہیں۔ان کی تعداد 4 لاکھ سے زاید ہے۔ اس طرح آزاد جمّوں کشمیر کے عام انتخابات 2021ء میں ووٹ دینے کے رجسٹرد اہل افراد کی کُل تعداد 32 لاکھ سے زاید ہے۔
آزاد جمّوں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی عمومی نشستیں، جن پر امیدوار عوام کے براہِ راست ووٹس سے منتخب ہوں گے، 45 ہیں۔ ان میںسے 33 نشستیں آزاد کشمیر میں ہیں، جب کہ 12 نشستیں پاکستان میں مقیم1947ء کے کشمیری مہاجرین کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ جن میں سے 6 نشستیں مقبوضہ وادی کے مہاجرین کی اور 6 مقبوضہ جمّوں کے مہاجرین اور متاثرینِ منگلا ڈیم کے حصّے میں آتی ہیں۔ جن کے لیے پاکستان کے چاروں صوبوں میں انتخابی فہرستوں کے مطابق پولنگ اسٹیشنز بنائے جاتے ہیں۔
واضح رہے ، آزاد جمّوں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا ایوان 53 نشستوں پر مشتمل ہے، جس میں 45 عمومی نشستوں کے علاوہ 8 مخصوص نشستیں بھی شامل ہیںاور انہی میں 5 نشستیں خواتین کے لیے مختص ہیں، جب کہ ایک ایک نشست علما و مشائخ، ٹیکنو کریٹ اور بیرونِ مُلک مقیم کشمیریوں کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ مذکورہ مخصوص نشستوں پر اُمیدواروں کا انتخاب عام انتخابات کے بعد بالواسطہ طور پر ہوتا ہے، جنہیں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے منتخب ارکان ووٹ دیتے ہیں۔ یاد رہے، اس مرتبہ آزاد کشمیر کے انتخابی حلقوں میں 4 حلقوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل آزاد کشمیر میں 29 حلقے اور قانون ساز اسمبلی کی عمومی نشستوں کی تعداد 41 تھی۔
اِس وقت آزاد جمّوں و کشمیر کے الیکشن کمیشن میں 32 سیاسی جماعتیں رجسٹر ہیں، جن میں پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی شاخوں کے علاوہ آزاد جمّوں و کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ معروف جماعتوں میں پاکستان کی حکمران جماعت ،پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ(نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ مقامی جماعتوں میں آل جمّوں و کشمیر مسلم کانفرنس، جمّوں و کشمیر پیپلز پارٹی،جماعتِ اسلامی آزاد جمّوں و کشمیر، جمّوں وکشمیر لبریشن لیگ، جمّوں وکشمیر یونائیٹڈ موومنٹ اور جمّوں و کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی کے نام نمایاں ہیں۔الیکشن کمیشن کی حتمی فہرستوں کے مطابق آزاد جمّوں و کشمیر کی 33 نشستوں پر سیاسی جماعتوں سمیت آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی تعداد 602 ہے اور پاکستان میں مقیم مہاجرینِ جمّوں و کشمیر کی 12 نشستوں کے لیے 122 امیدوار میدان میں ہیں۔ اس طرح آزاد کشمیر کی گیارہویں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 2021ء میں کُل 724 امیدوارحصّہ لے رہے ہیں۔
آزاد کشمیر میں سیاسی عمل 1947ء سے جاری ہے۔ گرچہ ابتدا میں یہاں صرف مسلم کانفرنس ہی کا وجود تھا، لیکن واحد سیاسی جماعت ہونے کے باوجود بھی آزاد کشمیر حکومت اپنے آغاز میں استحکام حاصل نہ کرسکی۔ 1947ء سے 1959ء تک، 12برسوں میں یہاں 8مرتبہ ریاستی صدور تبدیل ہوئے۔پہلی مرتبہ 1959ء میں کے ایچ خورشید صدر منتخب ہوئےتھے۔ تاہم، ان کا انتخاب بھی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نہیں ہوا تھا، بلکہ صدرِ پاکستان، ایّوب خان کے اختیار کردہ بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت محدود حقِ رائے دہی کی بنیاد پر ہوا تھا۔
واضح رہے، آزاد کشمیر میں بھی پاکستان ہی کی طرح بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات 1970ء میں ہوئےتھے،جن میں مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار محمّد عبدالقیوم خان براہِ راست عوام سے ووٹ حاصل کرکے صدرِ ریاست و حکومت منتخب ہوئے۔1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں آزاد کشمیر کی پہلی 25 رکنی قانون ساز اسمبلی قائم ہوئی، جس میں آزاد کشمیر کی 16 نشستیں ،مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے مہاجرین کی 8 اور ایک خواتین کی مخصوص نشست شامل تھی۔
بعدازاں، 1974ء میں آزاد کشمیر میں پارلیمانی طرز کا عبوری آئین نافذ کیا گیا، جس کے تحت پہلی مرتبہ 1975ء میں انتخابات ہوئے۔ یہ وہی انتخابات تھے، جن کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور خان عبدالحمید خان آزاد جمّوں و کشمیر کے پہلے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم، جب 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں مارشل لاء نافذ کیا، تو آزاد کشمیر کی حکومت بھی اس کی لپیٹ میں آئی اور اسمبلی قبل از وقت تحلیل کردی گئی۔
مارشل لاء دَور کے بعد آزاد کشمیر میں جمہوری عمل 1985ء میں بحال ہوا۔ عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم کانفرنس برسرِاقتدار آئی اور سردار سکندر حیات خان وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ بعد ازاں، آزاد کشمیر کی چوتھی قانون ساز اسمبلی کے لیے عام انتخابات 1990ء میں ہوئے۔ جس میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی اور راجہ ممتاز حُسین راٹھور وزیر اعظم بنے۔ تاہم، ان کی حکومت محض ایک سال ہی چل سکی اور سیاسی عدم استحکام کی بنیاد پر وزیرِ اعظم نے اَزخود اسمبلی تحلیل کردی۔پھر آزاد کشمیر کی پانچویں قانون ساز اسمبلی کے لیے1991ء میں انتخابات ہوئے، جن کے نتیجے میں مسلم کانفرنس برسرِاقتدار آئی اور سردار محمّد عبدالقیوم خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
چَھٹی قانون ساز اسمبلی کے لیے عام انتخابات 1996ء میں ہوئے، جن میں پیپلز پارٹی نے کام یابی حاصل کی اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ 2001ء کے انتخابات میں مسلم کانفرنس کی حکومت بنی اور سردار سکندر حیات خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 2006ء میں ایک مرتبہ پھر مسلم کانفرنس نے حکومت بنائی اور سردار عتیق احمد خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان ہی کے دَور میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مسلم کانفرنس دھڑے بندی کا شکار ہوگئی۔بعد ازاں، 2009ء میں آزاد کشمیر کے موجودہ وزیر اعظم راجا محمّد فاروق حیدر خان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر سردار عتیق احمد خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی اور اس میں کام یاب بھی ہوگئے، نتیجتاً، پیپلز پارٹی کے سردار محمّد یعقوب خان وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم، دس ماہ بعد سردار یعقوب کو بھی ہٹا دیا گیا اور راجہ فاروق حیدر وزیر اعظم بن گئے، لیکن نو ماہ بعد ہی راجا فاروق حیدر کو بھی تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑ ا اور سردار عتیق احمد خان دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔اس طرح 2009ء سے 2011ء کے دوران، محض ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں آزاد کشمیر کی حکومت تین مرتبہ تبدیل ہوئی۔تاہم، اسمبلی نے اپنی مدّت پوری کی۔
آزاد کشمیر میں 2011ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی حکومت بنانے میں کام یاب رہی اور چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کی مدتِ حکومت پوری ہونے پر 2016ء کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ (نون) نے آزاد کشمیر میں حکومت بنائی اور راجا محمّد فاروق حیدر خان وزیر اعظم منتخب ہوئےاور اب، 2021ء میں آزاد جمّوں و کشمیر کی گیارہویں قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات ہو رہے ہیں، جن کے حتمی نتائج آج کا دن گزرنے کے بعد ہی معلوم ہوسکیں گے۔
تاہم، آزاد کشمیر کی سیاست کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ جو پارٹی مرکز میں اقتدارمیں ہو، وہی یہاں بھی حکومت بنانے میں کام یاب ہو جاتی ہے۔ دراصل اس میں آزاد کشمیر کے الیکٹیبلزکا کردار اہم ہوتا ہے کہ برادری ازم کی سیاست کے لیے مشہور آزاد کشمیر کے خطّے میں الیکٹیبلزچلتی ہوا کے دوش پر اپنا سیاسی سفر جاری رکھتے ہیں۔بہر حال، یہ بات خوش آیند ہے کہ یہاں 1985ء سے بلا تعطّل انتخابی عمل جاری ہے۔ 1991ء کے انتخابات کے بعد 2021ء تک چھے منتخب اسمبلیوں نے اپنی مدتیں پوری کی ہیں۔
دوسری جانب مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں اسی عرصے کے دوران سیاسی عمل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں سیاسی جماعتوں کو پے درپے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ 1990ء میں جب جمّوں و کشمیر میں تحریکِ آزادی میں تیزی آئی، تو مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے وزیرِاعلیٰ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو برطرف کردیا گیا۔ اور6 سال تک مقبوضہ کشمیر میں پہلے گورنر راج اور بعدازاں صدر راج نافذ رہا۔ اسی طرح 2008ء میں شرائن بورڈ تحریک کے دوران کانگریسی وزیرِ اعلیٰ، غلام نبی آزاد کی حکومت بھی قبل اَز وقت ختم کر دی گئی۔پھر 2018ء میں بھی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت ،بھارتیا جنتا پارٹی نے اپنی حمایت واپس لے کرختم کر دی تھی۔یہاں تک کہ اگست 2019ء میں بھارتیا جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ جمّوں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ہی ختم کردی،جس کے بعد مقبوضہ جمّوں و کشمیر اور لدّاخ ڈویژن کو دو علیحدہ انتظامی اکائیوں میں تقسیم کرکے ان کو مرکز کے ماتحت کردیا گیا ہے اور وہاں دو علیحدہ لیفٹیننٹ گورنرزتعیّنات ہیں۔
2018ء کے بعد سے یہ تیسرا سال ہے کہ جب مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی اسمبلی تحلیل ہے۔ گزشتہ ماہ، 24جون کو بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی کی دعوت پر مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی بھارت نواز سیاسی قیادت نے نئی دہلی میں ان سے ملاقات کی، جن میں مقبوضہ کشمیر کے چار سابق وزرائے اعلیٰ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عُمر عبداللہ، غلام نبی آزاد اور محبوبہ مفتی کے علاوہ دیگر بھارت نواز سیاست دان بھی شامل تھے۔ کشمیری رہنماؤں کو توقع تھی کہ بھارتی قیادت ان کے ساتھ جمّوں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی پر بات چیت کرے گی۔
تاہم، مذکورہ ملاقات میں بھارت کی دل چسپی کا موضوع مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کا انعقاد تھا۔ مذکورہ ملاقات پر معروف حرّیت رہنما، سید علی گیلانی کا کہنا ہےکہ ’’نئی بساط بچھائی جارہی ہے،جس میں ایک بار پھر بھارت نواز مفاد پرست عناصر کو مُہرہ بناکر کشمیری عوام اور عالمی رائے عامّہ کو گم راہ کرنے کی مذموم کوششیں کی جائیں گی۔ لیکن یہ سارے حربے نہ تو زمینی حقائق بدل سکتے ہیں اور نہ ہی کشمیری عوام کا جذبۂ حریّت کچل سکتے ہیں۔‘‘
جمّوں و کشمیر کی تحریکِ آزادی کے تناظر میں آزاد جمّوں وکشمیر کی سیاست و حکومت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ1947ء میں یہ حکومت مہاراجا کشمیر کی باغی حکومت کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر، تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، آزاد کشمیر کی موجودہ سیاست بیس کیمپ کے تصوّر پر پوری نہیں اُترتی۔ یہاں بھی روایتی سیاست کا عمل جاری ہے اور سیاست دان تحریکِ آزادیٔ کشمیر سے محض جذباتی لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں۔
اس تناظر میں یہ تجویز کارآمد دکھائی دیتی ہے کہ ’’آزاد کشمیر کی حکومت کو سفارتی سطح پر کردار دے کر اس ریاست کو حقیقی معنوں میں تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ بنایا جائے۔‘‘ مقبوضہ کشمیر کے برعکس یہاں مستحکم سیاسی عمل خوش آیند اور حوصلہ افزا ضرور ہے، لیکن جب تک یہاں کی حکومت اپنے اصل مقصد پر پوری نہیں اُترے گی، اس کا حقیقی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوسکے گا۔