• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

مغل پورہ ریلوے اسٹیشن سے ٹرین مسلم آباد ریلوے اسٹیشن (اب بند کر دیا گیا ہے) پھر ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن (یہ بھی بند کر دیا گیا ہے) پھر گورڈ پیر ریلوے اسٹیشن اور اس کے بعد واہگہ ریلوے اسٹیشن جاتی تھی۔واہگہ ریلوے اسٹیشن لاہور کا آخری ریلوے اسٹیشن ہے، اس کےبعد امرتسر کی ریلوے لائن شروع ہو جاتی ہے۔

ہم مغل پورہ ریلوے اسٹیشن سے شام کو سات بجے ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن جا پہنچے، اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت ماضی کے دیہات کے چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں کی طرح کی ہے یہتاریخی عمارت جو 1890 اور بعض حوالوں کے مطابق 1912کی تعمیر شدہ ہے مگر اب ایک HAUNTED HOUSE کا منظر پیش کر رہی تھی۔ چھت کے اوپر بڑے بڑے درخت نما پودے اگ چکے ہیں۔ لاہور کے تمام ریلوے اسٹیشن ایک سو سے ڈیڑھ سو برس تک قدیم ہیں۔ یہ اعزاز برصغیر میں کسی شہر کو حاصل نہیں کہ ایک شہر کے اندر ہی 14ریلوے اسٹیشن ہوں اور یہ سب کے سب 1990 تک مسافروں کی آمدورفت کے لئے کام کر رہے تھے اور ان پر مسافر اور مال گاڑیاں دونوں چل رہی تھیں دنیاکے بہت سارے ممالک میں وہاں کی حکومتوں نے لوگوں کے لئے تفریحی ٹرینیں چلا رکھی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹرینیں اسٹیم انجن کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاںا سٹیم انجنوں کو خراب کرکے کھڑا کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ اسٹیم انجن آج بھی کام کر سکتے ہیں۔

لاہور میں ڈی ایچ اے وسیع ترین رقبہ رکھتی ہے، اِس قدر وسیعہائوسنگ اسکیم کہیں نہیں، ان کو چاہئے کہ وہ ڈی ایچ اے کے اندر باہر کے ممالک کی طرح اسٹیم انجن کے ساتھ تفریحی ٹرین کا آغاز کریں۔ یقیناً بہت لوگ اس میں سفر کریں گےاور یہ آمدنی کا ذریعہ بھی بنے گی۔بہرحال ہم ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے ۔ پورے علاقے میں بھینسوں کے گوبر کی بدبو اور تعفن پھیلا ہوا تھا۔ چار ریلوے لائنوں میں جلی ہوئی اور خراب بوگیاں کھڑی تھیں جبکہ لائنوں کے درمیان بھینسوں کے کھانے کے لئے لکڑی کی کھلی میں چارہ رکھا گیا تھا۔ اسٹیشن پر ہو کا عالم تھا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ریلوے اسٹیشن 1990 تک مسافر ٹرینوں کے لئے کام کرتا تھا۔ تین چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل یہ ریلوے اسٹیشن بھی 1890 یا 1912 کے لگ بھگ تعمیر کیا گیا تھا۔ بڑا خوبصورت اسٹیشن تھا۔ پاس ہی کانٹا تبدیل کرنے کے لئے لکڑی کی انتہائی خوبصورت چھت کا کمرہ تھا۔ جو اب تباہی کے دہانےپر ہے۔ اس تاریخی عمارت پر کڈم عمارت کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ بڑا دکھ ہوا کہ یہ ریلوے اسٹیشن اس بدترین حال میں آ چکا ہے۔

ایک دور تھا جب ہم نے اس ریلوے اسٹیشن کی سیر کی تھی تو بالکل دیہاتی منظر تھا، کیا خوبصورت اور صحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ آج یہ عالم ہے کہ جب ہم اس ریلوے اسٹیشن کو کوئی چالیس برس بعد دیکھنے پہنچے تو نقشہ ہی بدل چکا تھا پہلے تو گائے بھینسوں کے گوبر کی شدید بدبو نے استقبال کیا۔ ریلوے ا سٹیشن کی چھوٹی سی عمارت کے باہر دیگیں پکانے والوں اور لکڑی کا آرا چلانے والوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ دھڑا دھڑ لکڑی کاٹی جا رہی تھی۔اس تاریخی اور ماضی کے خوبصورت ترین ریلوےاسٹیشن کے قریب کچھ پُراسرار قسم کے افراد پھرتے رہتے ہیں۔

اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے اندر سے جان بوجھ کراور ارادتاً اینٹیں اکھاڑی گئی تھیں اور ریلوے کا کوئی گارڈ/چوکیدار یہاں موجود نہ تھا جب ہم نے اس اسٹیشن کو دیکھا تھا تو یہاں باقاعدہ ٹرینوں کی آمد و رفت کے حوالے سے باخبر کرنے والے تمام آلات اور قدیم فون سسٹم کام کر رہا تھا۔ارے ﷲ کے بندو یہ وہ اسٹیشن ہے جہاں سے امرتسر سے آنے والے مہاجرین کی بھری ہوئی ٹرینیں گزر کر مغل پورہ ،میاںمیر اور والٹن ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تھیں پھر جو ہندو اور سکھ لاہور سےبھارت گئے وہ بھی اس ریلوے اسٹیشن کے ذریعے گئے۔ لاہور کے بے شمار دیہات آج بھی سکھوں کے نام پر ہیں۔ لاہور کے بعض دیہاتی علاقوںمیں زیادہ تر سکھ رہتے تھے، اس تاریخی اسٹیشن کی عمارت کو محفوظ بنا کر بہترین تفریح گاہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔بہر حال ٹرینوں کی پٹریوں پر بھینسیں بیٹھی ہوئی تھیں اورجگہ جگہ گندا پانی کھڑا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھینسوں اور گائے کے چارے کے لئے کھلی بھی لائنوں کے درمیان رکھی ہوئی تھی۔

اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی زمین پر آہستہ آہستہ قبضہ مافیا قبضہ کرتا جا رہا ہے اور اس کی تاریخی عمارت کو بھی بڑے احسن طریقے سے گرانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، چھت پر بڑے بڑے پودے ہیں۔ 1886 میں راجہ ہربنس سنگھ نے لاہور شہر سے تقریباً چھ /سات میل دور ایک گائوں آباد کیا تھا جو ہربنس پورہ کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی مشہور ہے اور عزیز قارئین جب یہ گائوں راجہ ہربنس سنگھ نے آباد کیا تھا تو اس نے انگریزوں سے درخواست کی تھی کہ یہاں پر ریلوے اسٹیشن بنا یا جائے تاکہ اس کے مزارعے اور دیہاتی لاہور شہر تک جاسکیں۔ چنانچہ 1912میں یہاں پر انگریزوں نے ریلوے اسٹیشن قائم کر دیا۔ اس علاقے میں اس زمانے میں پھلوں کے بے شمار درخت تھے اور اسٹیشن بنانے کے باوجود یہ علاقہ سر سبز اور شاداب تھا بلکہ شاید آپ کو یقین نہ آئے 1970 تک بھی یہ علاقہ کسی حد تک اپنی اصل صورت میں تھا۔ کبھی ہربنس پورہ میں برطانوی فضائیہ کی ورکشاپس اور اسلحہ ڈپو بھی تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ریلوے اسٹیشن کی اہمیت بہت بڑھ گئی تھی۔1930میں یہاںاسٹیم انجنوں میں پر پانی بھرنے کیلئے بڑے بڑے نل اور پمپ بھی لگائے گئے۔ہمارے لوگوں نے وہ پمپ اور نل تک یہاں سے غائب کر دیے۔ تو جناب والٹن کا تاریخی ایئرپورٹ گرانے کی منصوبہ بندی ہوگئی ہے۔ زمین کی بولی 24کروڑ روپے مرلہ سے شروع کی جارہی ہے۔ آئندہ کالم میں کچھ اور دلچسپ باتیں بتائیں گے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین