• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ سال پہلے تک جب دنیا کو ایک عالمی گاؤں سے تشبیہ دی جاتی تھی تو یہ محض ایک محاورہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ کب سوچا جا سکتا تھا کہ دنیا کے ایک دور دراز ملک برازیل میں موجود دنیا کا سب سے بڑا جنگل ایمازون جو پوری انسانیت کو آکسیجن کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، اس کی کٹائی سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ پاکستان سے زیادہ اِس حقیقت سے کون آگاہ ہے۔ بھارت میں گنے اور چاول کی فصل کی باقیات کو آگ لگتی ہے تو پورے لاہور میں ناقابلِ برداشت اسموگ چھا جاتی ہے۔ ہمسایوں کی ماحولیاتی دشمنی کی وجہ سے آج لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ انٹار کٹیکا کے گلیشیر پگھلنے سے پوری دنیا فکر مند ہے۔ حال ہی میں جنوبی جرمنی، اٹلی، اسپین اور چین میں ہونے والی تباہ کن بارشوں نے غور و فکر کی نئی راہ کھولی ہے۔ کویت میں شدید گرمی کے باعث گاڑیوں کی ونڈ اسکرین پگھلنے کے مناظر کویتی ٹی وی چینلوں پر پوری دنیا نے دیکھے۔ پاکستان کی سالٹ رینج میں چوآسیدن شاہ اور کلرکہار کے درمیان لگائی جانے والی فیکٹریوں نے ماحولیاتی آلودگی میں مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔ محکمہ جنگلات کی غفلت اور عدم دلچسپی کے باعث جنگلات کی کٹائی بیدردی سے جاری ہے۔ سمندر اور دریاؤں میں موجود مچھلیوں کا وحشیانہ انداز میں شکار کیا جا رہا ہے۔ فضا میں اڑنے والے پرندوں کے شکار کی کوئی حد متعین نہیں۔ باغات میں پرورش پانے والے پرندے، زمین کی سطح پر دوڑنے والے کیڑے مکوڑے، درختوں کی کوکھ میں گھر بنا کر رہنے والے معصوم جانور، یہ سب قدرتی ماحول تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی ماحول کے بگاڑ میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلی کے شکار ہونے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی یوں تو ہر میدان میں محلِ نظر ہے۔ خصوصاً مہنگائی اور امن و امان کی حالت اذیت ناک ہے۔لیکن اِن تمام حالات کے باوجود ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کیلئے حکومتی اقدامات کی تحسین ہونی چاہئے۔ خصوصاً حکومت کی آگاہی مہم قابلِ ذکر ہے۔ اگر عوامی شعور کی بیداری میں کامیابی ہوگی تو اس کا فائدہ کئی نسلوں تک محیط ہوگا۔ ملک کے تمام اداروں کو متحرک ہونا ہوگا۔ خصوصاً مسلح افواج جس کے سربراہ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ سماجی مسائل کے حوالے سے بھی فکر مند رہتے ہیں، جو مردم شماری، سیلاب اور قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے سمیت قومی نوعیت کے ہر معاملے پر حکومت کی مدد کرتا ہے، اس ادارہ کی خدمات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ موسمیاتی تبدیلی اب نیشنل سیکورٹی کی صورتحال اختیار کر چکی ہے، اِس لئے سیکورٹی اداروں کے اِس عمل میں شمولیت سے اس کی اہمیت مزید واضح ہوگی۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ انسانوں کی فطرت کے ساتھ جنگ سے زمین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ ان کے اس جملے کی تائید ان حقائق سے ہوتی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بتدریج بڑھ رہا ہے۔ صنعتی ترقیکی وجہ سے 2100میں درجہ حرارت تین ڈگری سیلسیس بڑھ جائے گا۔ اس دوران عبوری مدت کے لئے نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں معمولی سی کمی ضرور دیکھی گئی۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ اقوامِ متحدہ اپنی کوششوں سے سن 2030تک 45فیصد منفی گیسوں کے اخراج میں کمی لائے گا لیکن امریکہ جیسے طاقتور ملک کے اس معاہدے سے نکل جانے کے بعد غریب ممالک یہ بوجھ برداشت نہیں کر پائیں گے اور اقوامِ متحدہ کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ اِس وجہ سے رواں برس کو انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے کیونکہ اِسی سال نومبر میں برطانوی شہر گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس (COP 21) کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے آئی پی سی سی کے طے کردہ معیار کے مطابق 25فیصد زمین پر جنگلات موجود ہونے چاہئیں جبکہ ماہرین کے مطابق پاکستان میں جنگلات کیلئے استعمال ہونے والی زمین، ملک کے کل رقبے کا صرف 5.7فیصد ہے یعنی 4.54ملین ہیکٹر زمین پر جنگلات موجود ہیں۔ اس لئے حکومت مزید جنگلات اگانے میں سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔ حکومتِ سندھ نے بھی ساحلی علاقوں میں ایک ارب مینگرو درخت لگا کر قابلِ قدر کام کیا ہے۔ ملک کی موجودہ ماحولیاتی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہےکہ اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا برابر حصہ ہے۔ اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار میں ان معاملات کو حل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ان جماعتوں کو سیاست کے علاوہ اس مثبت کام میں بھی آگے آنا چاہئے۔ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کشمیر الیکشن میں نبرد آزما رہی ہیں لیکن کسی مقرر نے کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ حالت پر بات نہیں کی۔ وزیراعظم کی تقاریر میں بھی جذباتی پن غالب رہا۔ تمام رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر کے علاوہ ہر موضوع پر بات کی۔ کشمیر الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ ن کی دھڑے بندی بھی واضح ہوگئی ہے۔ میاں نواز شریف ضلعی سطح تک براہ راست ہدایات دے رہے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو لاتعلق کردیا گیا ہے۔ کشمیر الیکشن مہم کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کو ٹی وی چینلز پر برابر کوریج دی گئی جس سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ ادارے غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ البتہ مسلم لیگ کے جلسوں سے سلیکٹڈ کی تکرار کم نہ ہوئی۔ ان حالات میں کشمیر کے دونوں حصوں کے عوام ان سیاسی جماعتوں کے رویوں سے ازحد مایوس ہیں۔ مودی حکومت کے جارحانہ اقدامات اور حکومت پاکستان کی محض نمائشی بیان بازی کے باعث کشمیریوں کے اندر سخت بےچینی پائی جاتی ہے۔ سرحد پر مسلح افواج کے سپاہی اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

تازہ ترین