• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں 29شعبان کی شام، مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا۔ چاند نظر نہیں آیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دفعہ خیبر پختونخواہ کے کسی دور دراز علاقے میں بھی کسی کو چاند نہیں ملا۔ دو عیدوں کے امکان کو ابھی رد نہیں کیا جاسکتا البتہ پہلا روزہ ایک ہی دن، یعنی جمعرات کو رکھا گیا۔ جب منگل کو چاند دکھائی نہیں دیا تو پھر اگلے دن اسے ڈھونڈنے اور دیکھنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سو پتہ نہیں کتنے لوگوں نے اس نئے چاند کو، جو چند لمحوں کیلئے اپنی جھلک دکھا کر کھو جاتا ہے، دیکھا بھی یا نہیں… لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کیا چاند نے بھی، مون سون کے بادلوں کی اوٹ سے، پاکستان کو دیکھا؟ اور اگر چاند نے ہمیں اور ہمارے پاکستان کو دیکھا بھی تو کیا دیکھا؟ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستان کو ایک ایسے مہینے کے آغاز پر دیکھے کہ جو ہماری زندگی کے ساز کی دھن بدل دیتا ہے تو اسے کیا دکھائی دے گا…؟ اور اگر یہ مشاہدہ پورے مہینے کیا جائے تو اس کی روداد کیا ہوگی؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس مہینے ہماری زندگی یکسر بدل جاتی ہے۔ رمضان کے فضائل اور تزکیہ نفس اور تقویٰ کی اہمیت کا ذکر میرے بس کی بات نہیں ہے۔ ہاں، اگر دنیاوی پیمانے سے بھی ہم دیکھیں تو رمضان نظم و ضبط، برداشت، وقت کی پابندی اور سماجی رشتوں کو استوار کرنے کا ایک ایسا سبق ہے کہ جسے یاد کرکے ہم بہتر انسان بن سکتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جس جوش و جذبے کے ساتھ ہم اس مہینے کی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اتنی توجہ سے اس کے پیغام کو قبول نہیں کر پاتے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس مہینے کے حالات و واقعات پر نظر رکھیں اور یہ دیکھیں کہ ہم، کم از کم اس مبارک مہینے کیلئے، خود کو کتنا اور کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔ مثلاً یہ دیکھئے کہ بدھ کی شام، کراچی میں صدر آصف زرداری کے چیف سیکورٹی آفیسر بلال شیخ کی گاڑی پر بم کا حملہ کیا گیا۔ بلال شیخ اور تین دوسرے افراد اس دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ اگر منگل کی شام رویت ہلال کمیٹی چاند ڈھونڈ لیتی تو اس دن پہلا روزہ ہوتا۔ تو کیا اس صورت میں حملہ آور اپنا منصوبہ ملتوی کردیتے؟ اس سوال کا جواب گزشتہ سالوں میں، رمضان کے دوران ہونے والے واقعات کی روشنی میں دیا جاسکتا ہے۔ اور وہ جواب یہ ہے کہ رمضان کے دوران جرائم کے ارتکاب اور خونریزی سے پرہیز نہیں کیا جاتا۔
ہم نے تو منگل کو چاند نہیں دیکھا اور ہمارا رمضان جمعرات کو شروع ہوا لیکن عرب ملکوں میں بدھ کے دن پہلا روزہ رکھا گیا۔ چاند کی گردش کا نظام تو اٹل ہے اور ماہرین فلکیات اسے خوب جانتے ہیں۔ ویسے چاند، سورج اور ستارے ہماری تاریخ، روایات اور جذبات سے یوں پیوستہ رہے ہیں کہ ان کو سائنسدانوں اور ان کے پیچیدہ آلات کے سپرد کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ قمر تقویم میں نئے چاند کا نکلنا ایک الگ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن چاند، خاص طور پر پورا چاند، ایک روحانی اور دیو مالائی افق پر عاشقوں اور شاعروں اور دیوانوں سے کلام کرتا ہے۔ یہ تصور خاص طور پر ایک جذباتی ہیجان کا سبب بن سکتا ہے کہ جس چاند کو آپ دیکھ رہے ہیں اسی چاند کو کوئی اور، کسی دور کی بستی میں بھی دیکھ رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، چاند بھی ہمیں دیکھ رہا ہے۔ جب تو میں نے اس شاعرانہ تصور کا سہارا لیا کہ اگر چاند پاکستان کو دیکھے تو اسے کیا دکھائی دے گا۔ جہاں تک دیکھنے کا تعلق ہے تو یہ عمل اب شاعرانہ اور تصوراتی نہیں رہا۔ ’گوگل ارتھ‘ کی کھڑکی سے آپ دنیا کو دور سے بھی اور قریب سے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک ایک گھر پہچانا جاسکتا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں سے گزرنے کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ جب میں نے یہ سوچا کہ اس وقت پاکستان، آسمان کی بلندی سے کیا دکھائی دے گا تو میرے ذہن میں اس ملک کی اجتماعی کیفیت اور اس کے مسائل تھے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی کیا تصویر بنتی ہے اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا رمضان کی آمد سے دہشت گردی، افراتفری، بدنظمی اور انتشار کی شدت میں کوئی کمی واقع ہوگی یا نہیں؟
اس ہفتے میں نے ڈیڑھ دن لاہور میں اور ایک دن اسلام آباد میں گزارا۔ لاہور میں تو ادیبوں اور ادب کے اساتذہ سے ملاقاتیں رہیں البتہ اسلام آباد میں حالات حاضرہ اور قومی سلامتی کے موضوعات پر ماہرانہ تبصروں کو غور سے سنا۔ جو مجموعی تاثر تھا وہ اتنا خوفناک تھا کہ دل دہل گیا۔ گویا رمضان کے مہینے کی آمد ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب پاکستان خطرات میں گھرا ہے اور ایسی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی کہ فیصلہ کن اور دلیرانہ اقدامات کے بغیر حالات قابو میں آسکتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کی کہانی مختلف ہے۔ بلوچستان کے دکھ کسی دوسری نوعیت کے ہیں۔ کراچی بھی ایک قسم کا قبائلی علاقہ ہے۔ لیاری میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی اس شہر کی خون آلود تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے آسیب کا سایہ پورے ملک پر پھیلا ہوا ہے۔ ان حالات میں، ایک ایسے مہینے کا آغاز ہوا ہے جو امن اور آشتی اور قلبی سکون کی علامت ہے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ کہیں ان دنوں میں ہماری تکالیف اور ذہنی اور جذباتی بے چینی میں اضافہ نہ ہوجائے۔
رمضان کے حوالے سے، مصر بلکہ قاہرہ کا ذکر بہت ضروری ہے۔ میں خود کبھی رمضان کے دنوں میں قاہرہ نہیں گیا لیکن وہاں رمضان جس طرح منایا جاتا ہے اس کا تذکرہ پڑھا بھی ہے اور لوگوں سے سنا بھی ہے۔ میں نے پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی کا ذکر کیا۔ قاہرہ تو اپنے سیاسی بحران اور سڑکوں پر جاری پرتشدد احتجاج کی وجہ سے دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا مصر کے حالات کو سمجھنے اور سمجھانے میں مصروف ہے۔ معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں پر فوج کی فائرنگ سے پچاس سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ وہاں، جیسا کہ میں نے کہا، رمضان کا چاند ہم سے ایک دن پہلے نکلا۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ موجودہ حالات میں رمضان کا روایتی جشن کس طرح منایا جائے گا۔ میں نے بی بی سی پر ایک رپورٹ دیکھی جس کی سرخی یہ تھی کہ کیا رمضان کا، مصرکے بحران پر کچھ اثر پڑے گا؟ محمد مرسی کے حامیوں کے احتجاجی کیمپ میں پہلے روزے کے افطار کا ذکر بھی تھا اور یوں کہ قاہرہ کی تاریخ کا سب سے طویل دسترخوان، کئی امریکی اخباروں میں اسی انداز کے فیچر شائع ہوئے ہیں۔ قاہرہ کے رمضان کی شان ہی نرالی ہے۔ یوں بھی، قاہرہ کے قدیم بازار خان خلیلی کا ماحول الف لیلوی ہے۔ رمضان کے دنوں میں رنگ برنگے شیشوں کے لیمپ اور لالٹین آویزاں کی جاتی ہیں۔ سحری تک بازاروں میں رونق رہتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو سجاتے ہیں۔ سحری اور افطار کے وقت دوستوں اور رشتہ داروں کی محفلیں سجتی ہیں۔ افطار کے وقت آتشبازی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ پورے مہینے جیسے ایک تہوار منایا جاتا ہے۔ لیکن مصر کے لئے اور قاہرہ کیلئے یہ دن انتہائی پریشانی کے دن ہیں۔ دو سال پہلے، بہار کے دنوں میں، قاہرہ کے التحریر چوک میں جو مظاہرے ہوئے تھے ان کا پوری عرب دنیا پر ایک گہرا اثر پڑا۔ عوامی جدوجہد کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس انقلاب نے اسلامی نظریات کی حامی جماعتوں کو ابھارا اور مصر اور تیونس میں ان جماعتوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ مصر میں یہ تجربہ یوں ناکام ہوا کہ محمد مرسی کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد انہیں اتنی شدید عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ فوج کو مداخلت کا بہانہ مل گیا اور اب مصر میں خانہ جنگی کے سے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ ان حالات میں رمضان نے اپنا ڈیرہ ڈالا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مہینہ کیسا گزرے گا۔ رمضان کا چاند بھی یہی دیکھ رہا ہے۔
تازہ ترین