• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ممتاز شگفتہ نویس ادیب کرنل محمد خان نے کہا کہ”نقادوں پر خدا کی پھٹکار ہوتی ہے“ یہی وجہ ہے کہ کرنل صاحب کے فرمان کا احترام کرتے ہوئے میں نے آج تک کبھی کسی پر تنقید نہیں کی، بحث میں الجھنا ویسے بھی میرے مزاج سے میل نہیں کھاتا لیکن ادب وصحافت اور تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناتے ریکارڈ کی درستی کے لئے کبھی کبھی جواب آں غزل کہہ جایا کرتا ہوں ۔ میرا 25جون کا کالم جس کا عنوان تھا ”بے چہرہ دشمن اور زیارت“ پر تنقید کرتے ہوئے عظیم سرور صاحب نے 28 جون کو اپنے کالم ”زیارت کا طوطی خان“ میں لکھا کہ طوطی خان قائد اعظم کا خدمت گار نہیں بلکہ وہ وہاں کا مالی تھا اور اس نے کبھی قائد اعظم کو دیکھا تک نہیں تھا۔ عظیم سرور صاحب میرے لئے لائق تعظیم ہیں کیونکہ ان کا تعلق ریڈیو پاکستان سے رہا ہے وہ کراچی ریڈیو کے ڈپٹی کنڑولر ہوا کرتے تھے، میں نے بھی ایک عرصہ ریڈیو راولپنڈی اسلام آباد اور تراڑکھل پر مشاعرے پڑھے اور ڈرامے لکھے، بس یہی رشتہ ہے جو باعث تعظیم بھی ہے اور عقیدت بھی۔ البتہ میرے کالم کی بنیاد مطالعہ اور مشاہدہ تھی ،میں قطعاً یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کر رہا کہ میں نے قائداعظم محمد علی جناح صاحب کے بارے میں بے تحاشہ کتابیں پڑھ رکھی ہیں، میری گزارش صرف اتنی سی ہے کہ میں خود طوطی خان سے ملا تھا جو1942ء سے زیارت ریزیڈنسی میں خدمات انجام دے رہا تھا 1982ء میں جب میں اس سے ملا تھا تو اسے اس وقت وہاں چالیس سال ہو چکے تھے، اس نے مجھے جناح صاحب کا محترمہ فاطمہ جناح کا کمرہ دکھانے کے علاوہ ان کے استعمال کی چیزیں اور ڈائننگ ہال بھی دکھایا تھا ان دنوں بلوچستان کے گورنر رحیم الدین ہوا کرتے تھے اور انہوں نے ریذیڈنسی کے بجائے گورنر ہاؤس کا بورڈ لگوایا ہوا تھا ریذیڈنسی کے اندر جانے کے لئے گورنر صاحب کے ملڑی سیکرٹری سے خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی جو کوئٹہ میں ہوتے تھے۔ وہ سیاح جنہیں زیارت پہنچ کر پتہ چلتا تھا کہ ریذیڈنسی میں جانے کے لئے کوئٹہ سے اجازت چاہئے تھی تو وہ بہت پریشان ہوا کرتے تھے ان دنوں چونکہ وہاں تین روزہ کل پاکستان لیڈی کونسلر سیمینار تھا اس لئے وہاں میں نے بہت سی خواتین کو گلہ مند بھی دیکھا جنہیں ریذیڈنسی کے اندر نہیں جانے دیا جا رہا تھا۔ ریذیڈنسی کے باہر کا انتظام چونکہ پولیس کے پاس تھا اور میں نے وہاں پولیس والوں کا مہمان تھا اس لئے میری درخواست پر بہت سی کونسلرز کو پولیس نے اندر جانے دیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر طوطی خان مالی تھا تو وہ ریذیڈنسی کے اندر کیا کر رہا تھا اسے تو باہر باغیچے میں ہونا چاہئے تھا اور اگر عظیم سرور صاحب کے قول کے مطابق طوطی خان مالی تھا تو پھر صالح محمد کون تھا جسے تاریخ کی کتابوں نے زیارت کا مالی لکھا ہے، اگر عظیم سرور کبھی طوطی خان سے ملے نہیں اس کی آواز نہیں پہچانتے تو انہوں نے معروف علی خان کی ڈاکومینڑی پر کیسے یقین کر لیا کہ وہ کسی دباؤ کے تحت نہیں بنائی گئی ہو گی۔ کیا عظیم سرور صاحب نے یہ سوچنا بھی پسند نہ کیا کہ طوطی خان پر معروف علی خان صاحب نے جو پانچ سوال کئے تھے اور ان کا جواب جب انہیں نفی میں ملا تو قائداعظم کی شخصیت کا جو خاکہ سامنے آتا ہے وہ کوئی بدمزاج، چڑچڑا اور آدم بیزار شخص لگا جبکہ قائداعظم تو ایسے نہ تھے زندگی کی آخری سانس تک مسکراہٹ ان کے چہرے پر رہی، ان کی خوش مزاجی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم جب صوبہ سرحد کے دورے پر گئے تو وہاں کی مسلم لیگی خواتین قائداعظم سے ملنا چاہتی تھیں، ان سے کوئی سوال کرنا چاہتی تھیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ سب کی سب پردہ کرتی تھیں پھر ایسا کیا گیا کہ تمام خواتین کو ایک بڑے ہال میں بٹھایا گیا اور قائداعظم کو اسٹیج پر بٹھا کر درمیان میں پردہ لگا دیا گیا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا کہ ”اکثر ہوٹلوں پر لکھا دیکھا کرتے تھے کہ خواتین کے لئے پردے کا انتظام ہے لیکن آج آپ نے مجھے پردے میں بٹھا دیا ہے“۔
عظیم سرور صاحب نے جس دور کی بات کی ہے وہ دور سرخے اور سبزوں کی بحثوں کا دور تھا کچھ نے خود کو قائد عوام بنایا ہوا تھا اور کوئی قائداعظم کے مسلک کی بحث میں الجھے ہوئے تھے، ایسے میں سرکاری آدمی تاریخ کی حفاظت کرے گا یا حکومتی پالیسیوں کی؟
میں ابھی کالم یہیں تک ہی لکھ پایا تھا کہ کراچی سے ایک معروف بنکار اور ہمارے دیرینہ دوست جناب اختر خان نے چونکا دیا کہ وہ جب 1979ء میں زیارت گئے تھے تو طوطی خان نے انہیں بتایا تھا کہ قائداعظم زیارت میں ہی وفات پا گئے تھے ان کی میت کے دائیں بائیں تکئے رکھ کر کیپ پہنا کر زندہ ہونے کا تاثر دے کر زیارت سے لے جایا گیا تھا۔ اب یہ ایک نئی بات ہے عظیم سرور صاحب چاہیں تو کراچی میں اختر علی خان سے رابطہ کر سکتے ہیں، میں ریڈیو کی صداقت پر شک نہیں کر رہا مگر اتنا ضرور کیونکہ وہ حکومتوں کا آلہ کار ضرور رہا ہے۔ اگر عظیم سرور صاحب ریکارڈ دیکھنا چاہتے ہیں تو 20/اپریل 1974ء کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں اس رات دس بجے ریڈیو پاکستان نے خبر دی تھی کی فیلڈمارشل ایوب خان کی میت ان کے آبائی گاؤں ریحانہ پہنچا دی گئی ہے صبح آٹھ بجے جنازہ کی نماز ہو گی جبکہ ایوب خان کا جسد خاکی اسلام آباد میں ان کے گھر میں موجود تھا، اس کی وجہ یہ تھی ایوب خان کے مسلم لیگی ساتھی ایوب خان کو اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے مقام پر دفنانا چاہتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کو اسلام آباد میں دفنانے کی اجازت نہیں دی تھی، اس سلسلے میں راولپنڈی کے ممتاز سیاستداں سید علی اصغر شاہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے گئے تھے مگر وہ سوشلسٹ جمہوریہ برما کے صدر نیون کی آمد کی وجہ سے مصروف تھے اس لئے ملاقات نہ ہو سکی البتہ ملٹری سیکرٹری کو وہ بتا آئے تھے کہ ایوب خان کو شکرپڑیاں دفنانا چاہتے ہیں، شاہ صاحب دوبارہ ساڑھے نو بجے جب دوبارہ وزیراعظم ہاؤس گئے تو ذوالفقار علی بھٹو ملے مگر بغیر کسی تمہید کے علی اصغر شاہ سے کہنے لگے شاہ صاحب یہ نئی نئی باتیں مت کریں آپ فوراً ایوب خان کی میت کو لے کر نکل جائیں جنازہ صبح ریحانہ ہوگا، میں نے کہہ دیا ہے خبر چلائی جا رہی ہے پھر ایسا ہی ہوا ریڈیو نے اعلان کیا کہ میت ریحانہ پہنچا دی گئی ہے، حالانکہ ایسا نہیں تھا اگلے روز 21/اپریل کو جنازہ راولپنڈی ریس کورس گراؤنڈ میں ہوا تھا میں ایوب خان کے گھر سے ساڑھے سات سے پونے گیارہ بجے تک جنازے کے جلوس میں شامل رہا۔ سعودی عرب کے معلم حیدر الحیدری نے نماز جنازہ پڑھائی بہت سے لوگ ریڈیو کی خبر سن کر ریحانہ چلے گئے۔ ریس کورس گراؤنڈ میں سردار بہادر، یٰسین وٹو، محمد حسین چٹھہ، ایس ایم ظفر، مشیر بہادر، سید علی اصغر شاہ اور خواجہ شہاب الدین بھی موجود تھے۔بہت کسمپرسی اور بے بسی کا عالم تھا، بار بار اعلان ہو رہا تھا کہ جلدی سے صفیں بنا لیں ہم پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ جلدی سے ایوب خان کی میت لے کر یہاں سے نکل جاؤ! عظیم سرور صاحب کیا 20 اپریل 1974ء کی ریڈیو کی کارکردگی دیکھنا پسند کریں گے؟
تازہ ترین