• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبح صبح فون اٹھا کر اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ کھولا تو اس میں دنیا جہان کے صحافیوں اور دانشوروں کے ملالہ کے حوالے سے یا اس کے نام پیغامات کی بھرمار تھی۔ دنیا بھر کے صحافی جس میں ڈکلسن والش، لائی سی ڈوسے جیسے بے شمار لوگ شامل تھے۔ ملالہ کو اس کی سالگرہ، اس کی ہمت و بہادری ، اس کی تقریر کے متن کے حوالے سے مبارکباد دے رہے تھے۔ میرا دل اس لئے بھی خوش ہوا کہ آج کے مغربی میڈیا میں پاکستان کا نام ملالہ کے حوالے سے ایک روشن خیال، امید بھرا، ہمت نہ ہارنے والا ملک کے حوالے سے آ رہا تھا۔ ہم ایک زمانے سے اپنے ملک کے حوالے سے جو باتیں سن رہے ہیں وہ جہالت پر مبنی، تعلیم کے خلاف، طالبان کے گڑھ، دقیانوسیت اور دغاباز ملک کے حوالے سے ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے ایک طرف تو اُسامہ بن لادن کو نوبرس اپنے ملک میں مخصوص عناصر کی مدد سے پناہ دی اور دوسری طرف امریکہ سے شدت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لئے 40ارب ڈالر بٹورے۔ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ نے بہت سے رازوں سے پردے اٹھائے ہیں لیکن اب بھی بہت سے ایسے پردے ہیں جن کو اٹھایا جانا ضروری ہے۔ یہ طالبان کس نے پالے؟ عسکری گروہ کس نے تیار کئے؟ اُسامہ اتنا عرصہ کس کی مدد سے یہاں چھپا رہا؟ خیر یہ سب تو پھر کبھی سہی اس لئے کہ آج کا دن ماتم منانے کا نہیں بلکہ خوشیوں سے اپنا دامن بھرنے کا ہے۔ اس قوم کی ایک بیٹی نے شدت پسندوں کے ہاتھوں شدید زخم اٹھانے کے باوجود ہمت و حوصلہ نہ ہارا۔ وہ دنیا بھر میں تعلیم کے لئے ،قلم کے لئے، عورتوں کے حقوق کے لئے اٹھنے والی آواز بن گئی ہے۔ کیا ہم کبھی سوچ سکتے تھے کہ ایک صرف سولہ برس کی بچی کی پیدائش کے دن کو اقوام متحدہ عالمی دن کے طور پر منانے کااعلان کرے گی۔ کیاہم کبھی سوچ سکتے تھے کہ سولہ برس کی یہ بچی کبھی اقوام متحدہ میں یوتھ اسمبلی جس میں گورڈن براؤن اور بان کی مون جیسے لیڈران بھی شامل ہوں گے، کو خطاب کرے گی اور ایسے کہ بان کی مون اس کے بارے میں کہیں گے کہ یہ بچی ہماری ہیرو اور چمپئن ہے۔ اس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ نوجوان دنیا کی نئی سپر پاور ہیں۔تعلیم کے راستے میں حائل رکاوٹوں پر قابو پانا ہوگا۔ انہوں نے اس ضمن میں ملالہ کی قربانی کا حوالہ دیا اور کہا کہ جس طرح شدت پسند اس کا راستہ روکنے میں ناکام رہے اسی طرح وہ خود ہر جگہ ناکام رہیں گے۔
ملالہ نے اپنا خطاب رب کریم کے پاک نام سے شروع کیا۔ اس نے بتایا کہ اس کی سالگرہ کا دن صرف اس کے لئے نہیں بلکہ ہر اس عورت، لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے ہے کہ جنہوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے۔ دنیا میں ایسے سینکڑوں سماجی کارکن موجود ہیں کہ جو دنیا میں انسانی حقوق کے حصول کی خاطر، تعلیم کی خاطر، جہالت کے اندھیرے دور کرنے کی خاطر ، امن کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ سب لوگ سلام کے قابل ہیں۔ احترام کے قابل ہیں جبکہ دہشت گردوں نے امن و انصاف پسند ہزاروں لوگوں کو شہید کردیا ہے اور لاکھوں ان کے ہاتھوں زخمی حالت میں ہیں۔ ملالہ بھی ان زخمیوں میں سے ایک ہے لیکن اس کے دل میں ایسے لوگوں کے لئے نفرت نہیں ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اگر اس کے ہاتھ میں بندوق ہو اوراسے زخمی کرنے والا اس کے سامنے کھڑا ہو تب بھی وہ اسے گولی نہیں مارے گی۔ یہ سبق اس کے بقول اس نے ہادی برحق رسول ﷺ سے سیکھا ہے۔ تبدیلی کا یہ جذبہ ہے جواس نے مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا اور محمد علی جناح سے ورثہ میں لیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ قلم کا راستہ اپناؤ اس لئے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ کہتی ہے کہ کتاب اور علم کی اہمیت کا ادراک کرو۔ اس لئے کہ انتہاپسند قلم اور کتاب سے خوفزدہ ہیں۔ ملالہ کے بقول یہ شدت پسند خواتین کی آواز سے بھی ڈرتے ہیں اسی لئے انہوں نے کوئٹہ میں حملے کے دوران 14 معصوم میڈیکل طالبات کوقتل کیا۔ وہ علم سے ڈرتے ہیں اسی لئے انہوں نے سینکڑوں سکولوں کو بموں سے تباہ کردیا۔ ملالہ نفرت سے نفرت کرتی ہے۔ وہ مستقبل میں خیر کی نوید سناتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس کی کوشش ہوگی کہ ہر بچے کے روشن مستقبل کی خاطر سکول بنیں۔ ہم سب امن کیلئے اور تعلیم کے حصول کے لئے اپنا سفر جاری رکھیں گے۔ اس کام سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا اگر ہم اپنی منزل کی طرف ہمت سے بڑھتے رہیں، ہم اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہیں اور دنیا میں تبدیلی کیلئے کوشاں رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آواز میں طاقت اور عزم پیدا کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے الفاظ دنیا کو بدل سکتے ہیں کیونکہ تعلیم کی منزل کے لئے ہم سب ایک ہیں۔ ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔ وحشت کی، بربریت کی دنیا کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ظلم اور اندھیروں پر مبنی کائنات نہیں چل سکتی۔ تعلیم ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ تو آیئے ہم سب مل کر کتاب اور قلم اٹھالیں اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کیلئے علم کی شمع جلا لیں۔ ملالہ کا یہ پیغام صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا میں علم کے حصول کیلئے جنگ کرنے والوں کیلئے ہے۔ اس نے جو قلم اور کتاب ایسے ہتھیاراٹھائے ہیں ہمیں یقین ہے کہ اس کی طاقت سے ظلم کو، اندھیروں کو شکست دینے میں وہ اور ہم سب ضرور کامیاب ہوں گے۔ آیئے ہم بھی اپنے گرد سازشی کہانیاں بننے والے عناصر سے بچ کر علم کے لئے آگے بڑھیں۔ ملالہ اگر روشنی کا پیغام دے رہی ہے تو یہ کوئی یہودی سازش نہیں ہے۔ علم صرف ہندوؤں ، امریکیوں اور یہودیوں کی میراث نہیں ہے۔ ہم اگر پڑھے لکھے ہو جائیں گے تو امریکی ایجنٹ نہیں بن جائیں گے۔ اس سب پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین