• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکان کے لیے جمع شدہ رقم پر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ واجب ہے

تفہیم المسائل

سوال: ایک آدمی کے پاس نصاب سے زیادہ رقم ہے اور وہ رقم مکان کے لیے جمع کررہا ہے۔ اس صورت میں اس رقم پر زکوٰۃ اور قربانی کا کیا حکم ہے ؟ (حافظ سیف الرحمان ،چمن،بلوچستان)

جواب: حاجاتِ اصلیہ کا تعین زمانے ،علاقے ، ماحول اورکسی شخص کی اپنی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے، کسی کا مکان پانچ لاکھ کا اور کسی کا پانچ کروڑ کا ہوسکتا ہے ،لیکن دونوں اشخاص کے اعتبار سے اُن کا مکان حاجتِ اصلیہ میں شامل ہے۔ اسی طرح سواری کا بھی اپنا اپنا معیار ہوتا ہے ، کسی کی سواری موٹر سائیکل ہے اور کسی کی کار ،مگر یہ دونوں اُن افراد کی حاجتِ اصلیہ میں شامل ہیں، یعنی حاجتِ اصلیہ میں قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔غرض معیارِ زندگی کے اعتبار سے لوگوں کی حاجات وضروریات جدا جدا ہوتی ہیں ، اس سلسلے میں کوئی لگا بندھا اصول اور ضابطہ قائم نہیں کیاجاسکتا ۔اپنی حیثیت کے مطابق لوگوں کی اولاد کے تعلیمی اخراجات بھی مختلف ہوتے ہیں ۔

اگر کسی نے اپنی حاجتِ اصلیہ (جیسے مکان کی خریداری)کے لئے رقم جمع رکھی ہوئی ہے ، مگر ابھی اس مصرف پر صرف نہیں ہوئی ،تو ایسی رقم پر زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں ؟،اس ضمن میں فقہائے کرام کی آراء حسبِ ذیل ہیں: علامہ شیخ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور مال کاحاجتِ اصلیہ سے خالی ہونا شرط ہے ،کیونکہ جو مال حاجتِ اصلیہ میں مشغول ہو وہ بمنزلہ معدوم کے ہے ۔ 

ابن ملک کی شرح المجمع میں اس قول کی تفسیریہ بیان کی گئی ہے:’’ مال مشغول سے مراد وہ مال ہے جو انسان کو ہلاکت سے بچائے، خواہ یہ بچانا حقیقۃً ہو یا حکما ً ۔حکماً بچائو کی مثال : جیسے قرض ہے اور حقیقی بچائو کی مثال :جیسے روزمرہ کے اَخراجات ، رہائشی مکانات ، جنگی ہتھیار ، سردی اور گرمی کے موسمی کپڑے،اہلِ حِرفت کے پیشہ ورانہ آلات ، گھریلو سامان، سواری کے جانور (یا موجودہ دور میں موٹر سائیکل کار وغیرہ )اور اہلِ علم کے لیے ان کی کتابیں ہیں۔ اگر کسی کے پاس پیسہ ہے ، لیکن بیان کی گئی اِن مذکورہ حاجات پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے ، تووہ پیسہ نہ ہونے کی مانند متصور ہو گا ،جیساکہ پینے کی ضرورت کے لیے پانی ہے(مگر وضو کے لیے دستیاب نہیں ہے ) تو ایسے شخص کے لیے تیمم جائز ہے ،کیونکہ (وضو کے مقصد کے لیے )وہ پانی نہ ہونے کی طرح ہے۔اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ کسی شخص کے پاس پیسے ہیں اور اُس نے اپنی حاجتِ اصلیہ پر خرچ کرنے کے لیے انہیں جمع کررکھا ہے ، تو اگر وہ پیسے اُس کے پاس موجود ہیں اور سال پورا ہوگیا ہے ،تو تب بھی اُن پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ (…جاری ہے…)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین