• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجابی محاورہ ہے کہ’’ جوپنڈیا گائوں میں نکمے ہوتے ہیں وہ شہر میں بھی نکمے ہی رہتے ہیں‘‘۔ قومی حوالے سے اس وقت ہماری داخلہ پالیسیاں جس قدر خراب ہیں خارجہ پالیسی یا بیرونی محاذ پر بھی ہم اسی قدر ناکامی کا شکاردکھائی دیتے ہیں۔ہماری اس نا سمجھی کی سمجھ پوری دنیا کو ہے مگر خود ہمیں تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں جبر کی حکمرانی ہے، کہنے کو یہ ایک آزاد سوسائٹی اور جمہوری ملک ہے مگر درحقیقت اس گھٹن زدہ سماج میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی اور کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے عقل و شعور کی بات کرنا مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ جتنی مرضی سیاسی سماجی یا مذہبی منافرت پھیلائو کوئی ایشو نہیں۔ بھائی کا بہن کو اُسکے وراثتی حق سے محروم کرنایا غیرت کے نام پر اُس کا قتل کردینا ہمارے معاشرے میں معمولی بات تصور کی جاتی ہے۔بات شروع ہوئی تھی ہماری خارجہ پالیسی کے محور سے، جس کے گرد ہماری پوری خارجہ پالیسی پچھلی سات دہائیوں سے گھوم رہی ہے اور یہ ہے مسئلہ کشمیر اور اس کے ساتھ جڑا انڈیا دشمنی کا ناسور، جس نے ہمیں پوری دنیامیں ابنارمل، مشہور کروا رکھا ہے ہمارے جو مقدس دوست ہیں وہ بھی ہماری سوچ کے ساتھ کھڑے ہونے اور خود کو ہولاثابت کروانے کے لئے تیار نہیں۔ دہائیوں سے ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرہ زن ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان لیکن ہمارا وزیراعظم خود آزاد کشمیر کے کشمیریوں کے بیچ کھڑے ہو کرفرماتا ہےکہ کشمیریو !ہم دوریفرنڈم کروائیں گے، اس بات پر کہ آپ نے پاکستان کے ساتھ رہنا ہے یا آزاد و خود مختار؟ بندہ پوچھے بھائی اگر یہ پاکستان کی شہ رگ ہے تو پھر ہم اسے اپنے وجود سے کیونکر الگ کرسکتے ہیں؟ ایک طرف آپ سب لوگ اقرار کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان بھی تمام تر حوالوں کے ساتھ کشمیر کا حصہ ہے۔ دوسری طرف آپ اسے پاکستان کا پانچواں صوبہ ڈیکلیئر کرنے کیلئے پوری تیاری کئے بیٹھے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے آپ وہاں کے عوامی جلسوں میں یہ خوشخبریاں سنا چکے ہیں اور اس کی بنیاد پر انتخابی معرکے جیت چکے ہیں ۔ہمارے کرتا دھرتا خود اِس کی حمایت میں دلائل کے انبار لگا رہے ہیں ۔ درویش آپ کی ان تمام باتوں میں سے کسی ایک سےبھی انکاری نہیں یہ بدلتے وقت کے ساتھ امڈتے حقائق ہیں جن کا ادراک پاکستانی عوام کو بھی ہونا چاہئے۔ آپ کو یہ سب باتیں عوام میں زیر بحث آنے دینی چاہئیںلیکن ساتھ ہی درویش یہ بھی پوچھتا ہے کہ اس سب کے بعد پانچ اگست کا پیچھا کرنے کا جواز باقی رہے گا؟ بات ہو رہی تھی اپنی پالیسیوں کے بارے میں ان کا تو حال یہ ہے کہ پاکستان کا وزیر تجارت قومی مفاد میں ہندوستان سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کے لئے فیصلہ کرتا ہے ، فیصلے کی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوتی اور وہی شخص اگلے روز بطور وزیراعظم وہ فیصلہ واپس لے لیتا ہے۔ انڈیا سے تجارت کھولنا ایک دن پہلے پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے تو دوسرے دن یہ بے معنی و لاحاصل کیسے ہو جاتا ہے؟آج ہمارا غصہ امریکی صدر جوبائیڈن پر ہے جو اتارے نہیں اتر رہا بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ؟ ’’اگر بائیڈن نے ہمارے وزیراعظم کو فون نہ کیا تو ہمارے پاس دیگر کئی آپشنز بھی ہیں‘‘۔ فون کال تو ایک معمولی سی چیز ہے اس ظالم کو چاہئے کہ جہاں ڈومور کہتا ہے وہاں اس حوالے سے ایک کال ہی کر دے۔ایسے میں اگر ہم اڈے دینے کی بات پرAbsolutely Not کہہ رہے ہیں تو یہ بھی نرم ترین الفاظ میں غیر ضروری ہے ہمیں اپنی نہیں تو اپنے ملک کی عزت و وقار کا کچھ تو احساس و ا دراک ہونا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین