• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روشنیوں کے شہر میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی فرمائش بھی حکم ہی ہوا کرتا ہے۔ خاص کیا اب تو متوسط طبقہ بھی اس بات سے آشنا ہے کہ روم میں رہنا ہے تو رومیوں کی طرح نہیں تو روم چھوڑ دو۔ جن کی فرمائش’’حکم‘‘ ہوتی ہے ان کی فہمائش بھی حکم سے کم کب ہوا کرتی ہے؟

چھوڑیے یہ مشکل باتیں آسان فہم لب و لہجے کو بروئے کار لاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں میں تین دفعہ روشنیوں کے شہر سے ہم کلام ہونے کے مواقع کی خوش فہمیوں کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ایک بار تو وہ صاحب روشنیوں کے شہر کے سیاہ و سفید پر نظر رکھے ہوئے تھے جو ان دنوں ایک عرب ملک میں سفیر ہیں۔ یہ سب دیکھ کر تسلی دل و دماغ کے ساتھ دامن گیر ہوئی کہ ڈی جی رینجر جنرل بلال اکبر کراچی کو ازسر نو چمکیلا و رنگیلا اور سریلا کرکے ہی جائیں گے، وہ بطور ڈی جی بلا کے معاملہ فہم اور لوگوں کیلئے ایک دو ملاقاتوں میں دلنواز بن جانے والے تھے، مگر کراچی کی بدقسمتی نہ جاسکی،وہ چلے گئے مگر اپنی بساط میں کچھ بہتر بھی کرگئے۔ جہاں ایک خاص مکتب فکر کے لوگ تیسرے چوتھے سکیل سے 17ویں تا 18ویں سکیل تک پہنچ چکے ہوں، مشینوں کو زنگ اور ڈیوٹی کو ترنگ کھا چکا ہو وہاں صفائی ستھرائی جلدی اپنے مقام پر کیسے آسکتی ہے؟ جہاں لین اور لائین کا فلسفہ فوت ہوگیا ہو وہاں ٹریفک اودھم نہیں مچائے گی تو کیا کرے گی؟

برسے جو بوند بھی تو سمندر اور ساحلِ سمندر کا فرق مِٹ جائے، اور جب تو پانی اس قدر نایاب ہو جائے کہ، ایک آنسو کو ترسے تقریبِ غم!

ایک بارتو سابق وزیرِمملکت ہمراہ تھے۔ کراچی میں محض رُکنا تھا دراصل گوادر منزل تھی، جہاں قیام تھا ویسی بہترین جگہ شاید امریکہ و برطانیہ میں بھی میسر نہ آئے مگر ایکوسسٹم کا عالم یہ کہ، کراچی کی دیواروں پر اداسی بال کھولے سو رہی تھی،ایم کیو ایم کے صاحب مئیر تھے۔ روشنیوں کے شہر کی مدھم روشنی کو یہ بھی چمک دمک فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ ہر پل یہی سوال جان کھائے جارہا تھا کہ اس کا اپنا مکتب فکر بھی اس کا معاون نہیں، میونسپلٹی کے امور میں بہتری کون لائے گا؟بلدیہ کے تساہل پسند اور بھائی پرست عناصر کے ہاں پیپلزپارٹی کو گھاس ڈالنے کا تصور تک ناپید ہے حکومت چاہے 2008 تا 2013 یا 2013 تا 2018 کسی قائم علی شاہ کی ہو یا 2018 تا تاحال کسی مراد علی شاہ کی ہو، کراچی میں ایم کے سی کو قابو میں لانا جوئے شیر لانے کےمترادف ہے یا پھر واقعی کو نعمت، نعمت اللہ خان سی ہو جو بگاڑ کو حسنِ سلوک اور شبانہ روز محنت سے کمال و جمال فراہم کردے۔

اپر سندھ اور لوئر سندھ میں تو سالانہ دورہ رہتا ہی اور نگر نگر گھوم کر، NICVD، گلٹی میڈیکل انسٹیٹیوٹ، آئی بی اے سکھر، عمر کوٹ و اسلام کوٹ کے تھرکول پاور پراجیکٹس اور لاڑکانہ و میرپور خاص و بدین تک کی ڈویلپمنٹ دیکھ کر یقیناً دل میں خیال آتا ہے کہ گر کراچی میں دوستوں، خاص مکتب فکر اور گورنر ہاؤس کا تعاون مل جائے تو کراچی کی چمک پورے عالم تک جاسکتی ہے لیکن یہ سہولتیں دستیاب ہوجائیں یہ ممکن نہیں۔ اس طرح سیاسی نقشہ ہی بدل جائے اور پروپیگنڈہ کی مشینری تو پیوند خاک ہو جائے گی۔ خیر کراچی کے چند ماہ قبل کے دورہ میں یہ دیکھاکہ مرکزی ویکسی نیشن سینٹر میں منہ بولتا نظم و نسق اور معیار تھا۔ ایسے ہی کراچی کے کسی کینسر اسپتال کی بھی دھوم ہے۔ لوگوں سے بات ہوئی تو وہ مراد علی شاہ کی اینٹی کورونا مہم سے مطمئن تھے۔ پھر، میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ لاڑکانہ ہو یا خیرپور یہ ضیائی دور کے پی ٹی وی ڈراموں سے کلچر والے بالکل نہیں۔ ویسے تو تیرگی میں دیکھنے کو چشم بینا چاہئے مگر جو روز روشن کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں انہیں کیا کہئے؟ کراچی کے تعلیمی و تحقیقی اداروں اور ہیلتھ سنٹرز کا مقابلہ ہی نہیں تاہم جناح اسپتال و میڈیکل انسٹیٹیوٹ پر کسی خاتون کی بےجا اور بےپناہ اجارہ داری کا چرچا لاہور تا اسلام آباد تک ہے۔جس ہیلتھ منسٹر ڈاکٹر عذرا پیچوہو کو میں جانتا ہوں وہ تو ایسی اجارہ داری ہرگز پسند نہیں کرتی مگربات چونکہ عذرا پیچوہو کی اچانک چل نکلی چنانچہ انہیں یہ کہنا تھا کہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف آپتھامؤلوجی اینڈ ویژول سائنسز حیدرآباد کمال کاپراجیکٹ ہے، اس کو اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو اور لاڑکانہ کی میڈیکل یونیورسٹی کو بیک وقت آپ اور وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کی توجہ کی ضرورت ہے۔

بات شاید کراچی سے باہر نکل گئی، سوال یہ ہے کہ کراچی بلدیہ میں جب تک بنیادی ریفارمز نہیں آتے اور مخصوص مکتب کے ملازمین اور فلسفہ سے چھٹکارہ نہیں ہوتا تب تک کراچی کے زخم بھر نہیں سکتے ۔ یہ پیپلز پارٹی نے کیا سوچا کہ چند ماہ بعد بلدیاتی انتخابات ہیں، اور ایم کیو ایم ، مرکزی حکومت اور گورنر کی مخالفت مول لے کر مرتضیٰ وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر لگا دیں گے تو یکا یک بناؤ کے دریچے کھل جائیں گے؟ کسی بناؤ کا معجزہ تو ہوسکتا ہے وگرنہ مرتضیٰ وہاب کے بس کا روگ نہیں ہوگا، ٹی وی پر وہ پہلے ہی نظر آتے تھے ہاں کچھ دورانیہ بڑھ جائے گا ، اس کے علاؤہ کچھ نہیں تاہم سیاسی نقصان ہوگا پیپلز پارٹی کو، جب کچھ نہیں ہو پائے گا تو لوگ انگلیاں اٹھائیں گے۔ فرض کریں اگر ضلعی انتظامیہ یا بلدیاتی مہرے آپ کے ہاتھ میں آ بھی گئے تو انتخابات یا بعد از انتخابات لوگوں کی تسلی کرانا مشکل ہو جائے گا۔

یہ کراچی کی استروں کی مالا جو جو مرتضیٰ وہاب کے گلے میں ڈالی گئی ہے یہ پوری سندھ حکومت کے گلے کی مشکل بن جائے گی اور نزلہ سارا وزیراعلیٰ پر گرے گا۔ مجھے تو لگتا ہے اگر مرکز اور گورنر سندھ پیپلزپارٹی سندھ کا اس حوالے سے ناک میں دم کردیں تو شاید پیپلزپارٹی اس فیصلے کی پاداش میں اپنی سیاسی ساکھ بچا پائے ورنہ مشکل ہے! یا پھر ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی سرخرو ہو کر دکھائیں جیسا کہ وہ یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ ایسڈ ٹیسٹ کیا اثرات مرتب کرتا ہے، کیا استروں کی مالا ہیروں کی مالا بن پاتی ہے؟ بہرحال ایڈونچر بڑا ہے کہ، کبھی گورنر سیخ پا تو کہیں زیدی گرم اور کہیں ایم کیو ایم کی رکاوٹیں!

تازہ ترین