14؍اگست 2021کو پاکستان 74 سال کا ہو جائے گا۔ ان طویل سالوں کا سفر بڑا طوفان خیز تھا اور اب تک اس کی طوفانی لہروں میں کمی نہیں آئی۔ کبھی پر جوش، کبھی بے یقینی، کبھی کبھار خوش کن لیکن عموماً دل شکن اور اعصاب شکن رہیں۔ پیدائش کے ابتدائی برسوں ہی میں جو بقا کی لڑائیاں ہم پر تھونپی گیں انہوں نے ہم پر گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑے۔ آج یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس ملک کی تخلیق کےوقت اس کی بقا کتنی مشکل تھی۔
پاکستانی سفارت کار، جمشید اے مارکر جو نئی دہلی جم خانہ میں اشرافیہ کی پارٹیوں میں موجود ہوتے تھے، انہوں نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ ’’وہاں (پارٹیوں میں) یہ گفتگو ہوتی تھی کہ آیا پاکستان تین ماہ باقی رہے گا یا چھ ماہ‘‘ سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے تو اس حد تک خوش فہمی کا اظہار کیا کہ مغربی پاکستان میں کاشت کی ہوئی فصلیں چھ ماہ بعد ہم خودہی آکر کاٹیں گے۔ کیوں کہ اس وقت تک پاکستان ختم ہوجائے گا۔لیکن یہ محمد علی جناح کا پاکستان ہے، ناقابل شکست، ہار نہ ماننے والا، مخلص اور متحرک یہ ملک تین ماہ نہیں تاحیات قائم رہے گا۔انشاء اللہ تعالیٰ
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے فوری بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے امریکی صحافی، لائف میگزین کی نمائندہ، مارگریٹ بورک وائٹ کو پہلا انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، ’’پاکستان دنیا کا محور ہے، ایسے محاذ پر قائم ہے جس پر دنیا کی مستقبل کی پوزیشن گھومتی ہے‘‘۔ جنوری 1948ء میں میگزین نے ’’کور اسٹوری‘‘ کے طور پر انٹرویو شائع کیا۔ اس وقت پاکستان معاشی طور پر کم زور تھا۔
بڑے بڑے چیلنجز تھے۔ قائد کی قیادت میں سب کے حوصلے بلند تھے۔ لیکن بدقسمتی سے تخلیق پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائد دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اب صرف امیدیں رہ گئی تھیں کہ قائد کے اصولوں پر عمل کیا جائے گا۔ مستقبل کی تعمیر ان ہی خطوط پر ہوتی رہے گی لیکن رفتہ رفتہ سیاسی نظام پے چیہ گیوں اور الجھنوں کا شکار ہونے لگا۔ محلاتی سازشیں شروع ہو گئیں۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی سالوں میں وہ کچھ ہو گیا، جس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ سازشی کھیل آج تک جاری ہے۔
آج جب پاکستان 75 ویں سال میں قدم رکھ رہا ہے تو مستقبل پر نظریں رکھنے کے لئے ماضی پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مشکل اور پے چیدہ بحرانوں سے عبارت رہی ہے۔ ان بحرانوں کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ ملک اپنے کسی بھی دور میں سیاسی استحکام سے ہم کنار نہیں ہو سکا۔74 سالہ زندگی کے بیش تر حصے سیاسی بیانیوں نے خوف اور گہرے عدم اعتماد کو جنم دیا۔
ترقی یافتہ ممالک میں چوں کہ سیاسی نظام مستحکم و پائیدار ہے، اس لیے وہاں سازشوں اور چور دروازوں کے رستے بند ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں سیاسی ادارے نا پختہ ہوتے ہیں اس لئے وہاں اقتدار کی سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ حکم راں طبقہ ہمیشہ اس مقولے پر عمل کرتا آیا ہے کہ ’’تاریخ ایک بار لکھی جاتی ہے، بار بار دہرائی جاتی ہے، مگر ، ہر بار بھلا دی جاتی ہے‘‘۔
آگے دیکھنے اور بڑھنے کے لئے پیچھے بھی مڑ کر دیکھنا ضروری ہوتا ہے ، کیوں کہ ماضی بہت کچھ بتاتا بھی ہے اور سکھاتا بھی ہے۔ پاکستان کی 74 سالہ سیاسی تاریخ کو دیکھیں تو ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اس کو سویلین اور فوجی حکومتوں کے ادوار میں تقسیم کر کے جائزہ لیں۔ 1947ء 1988ء تک تین مرتبہ فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔ 1988ء سے 99ء کے درمیان کا سویلین دور، دو فوجی حکومتوں کے درمیان وقوع پذیر ہوا، خود اس دور میں چار سویلین حکومتیں وجود میں آئیں۔
گرچہ 1973ء کے آئین بننے کے بعد جو ملکی تاریخ میں ایک اہم سیاسی پیش رفت کی حیثیت رکھتا تھا توقع تھی کہ اب ہم جمہوری راستے پر چل پڑیں گے۔ جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے ایک روشن راستے پر گام زن ہو جائیں گے، لیکن حالات میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آئی۔ 1988ء سے 99ء تک چار حکومتوں کے اقتدار اور معزولی کی گیارہ سال پر پھیلی ہوئی کہانی ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہے، جس میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔
پاکستان میں اداروں کا عدم توازن، سیاسی اداروں کی کم زوریاں ، اہل سیاست کے باہمی تضادات، سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر جمہوریت کی عدم موجودگی۔ بیش تر جماعتوں کا قومی امور پر کسی قابل ذکر ہوم ورک نہ کرنا وغیرہ بحران کا بنیادی سبب بنتے رہے۔اور حکم راں مقصد پاکستان کو فراموش کرتے رہے۔ حالاں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے آزادی اس مقصد کیلئے حاصل کی تھی کہ وہ اپنے تہذیبی تصورات کے مطابق معاشرہ تعمیر کریں گے، اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے اور برابری کے اصولوں پر عالم گیر تہذیب کو پروان چڑھائیں گے۔ پاکستان بہ ظاہر ایک قومی ریاست کی شکل میں قائم ہوا تھا، مگر اس کے مقاصد میںمسلمہ امہ کی نشاۃ ثانیہ شامل تھی۔ اسی طرح وہ ایک جمہوری اور سیاسی جدوجہد کےنتیجے میں ظہور پذیر ہوا تھا۔
اس کے مقصد وجود میں یہ بات شامل تھی کہ اسلام اور جمہوریت کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم کیا جائے، خالص مغربی جمہوریت کا نظریہ بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے اس بنیاد پر قابل قبول نہیں تھا کہ اس کے تحت انہیں ہندو اکثریت کی غلامی اور بالا دستی میںز ندگی بسر کرنا پڑی تھی،لہٰذا ایک جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا گیا جہاں وہ اکثریت میں ہوں اور جمہوری انداز سے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق نظام حکومت چلایا جا سکے۔قائد اعظم نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ سیاسی اور جمہوری طریقوں سے ایک جدید اسلامی ریاست قائم کی جا سکتی ہے۔ اور بیسویں صدی کے وسط میں اسلام کو ایک مثالی نظام حیات کے طور پر بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ وہ اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھے کہ مسلمانوں کی اصل طاقت ان کی اسلام اور جمہوریت کے ساتھ گہری شیفتگی میں ہے۔
قائد اعظم کے دامن میں سیاسی تربیت حاصل کرنے والے نواب زادہ لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد کا جو متن دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا تھا، وہ ان کے فکری تصورات اور سیاسی نظریات کے عین مطابق تھا اس تاریخی دستاویز میں یہ بنیادی اصول درج تھا کہ ، اقتدار ایک امانت ہے، جسے استعمال کرنے کا حق صرف عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہو گا۔ اس دستوری دستاویز میں شہریوں کے بنیادی حقوق،عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے تحفظ کے جدید ترین نظریات پیش کئے گئے تھے۔
اقلیتوں، خواتین پس ماندہ علاقوں اور طبقات کے حقوق کے تحفظ پر بڑی توجہ دی گئی تھی اور ایک ایسے معاشرے کی جمہوری اور انسانی اقدار بڑی وضاحت سے بیان کی گئی تھیں جو اسلامی اخوت، مساوات اور معاشرتی انصاف پر قائم ہو گا اس اعتبار سے قرارداد مقاصد میں آزادی کے جملہ تقاضے یک جا کر دیئے گئے تھے لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کےفوری بعد قائد اعظم کی صحت تیزی سے بگڑنے لگی ۔پاکستان صرف تیرہ ماہ کا تھا کہ قائد دنیا سے چلے گئے،ان کی وفات کے بعد حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ پاکستان کی نظریاتی اور جمہوری بنیادوں کو ضعف پہنچنا شروع ہو گیا۔
مسلم لیگ، جو ایک طویل سیاسی تربیت اور ایک مضبوط کیڈر (Cader) سے بڑی حد تک محروم تھی۔ اس پر جلد ہی قوم پرست قابض ہوگئےاور مفاد پرستوں کے جوڑتوڑ نے ملکی سیاست میں حادثات اور غیر یقینی حالات کو ہوا دی۔ اس طرح آزادی کے تقاضے پامال ہونے لگے۔پس پردہ گروپ بندیاں شروع ہو گئیں۔ قائد اعظم جو پاکستان کو جلد سے جلد آئین دینے کے متمنی تھے، اس کی تیاری التوا میں پڑتی گئی۔ عوامی تنظیم کو کمزور اور بے اثر بنا دیا گیا ۔ سیاسی گاڑی پٹری سے اترنے لگی۔ اور وہ تصور جس کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا، جس کی خاطر عوام نے قربانیاں دی تھیں، جس کی بنیاد تھی کہ سلطانیٔ جمہور کا یعنی طاقت کا سر چشمہ عوام خودہوں گے۔ ان کو مکمل جمہوری آزایاں میسر ہوں گی۔
آئینی طور پر وہ سب حقوق حاصل ہوں گے جو ان کا حق تھے۔لیکن’’ سلطانیٔ جمہور ‘‘کے اصول کو ملیا میٹ کر دیا گیا۔ ’’سازشوں ‘‘کے ایک کے بعد ایک در کھلتے گئے۔ اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی۔ ملک کا معمار چلے جانے کے بعد قوم کی نظریں نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب تھیں جو قائد کے بعد پاکستان کو صحیح جمہوری ملک بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور قائد اعظم کی امیدوں کا سہارا تھے، 16اکتوبر 1951 کو ایک جلسہ عام میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ جب ان کی زبان سے صرف دو الفاظ ’’برادران اسلام‘‘ادا ہوئے تھے کہ دو گولیاں چل گئیں۔
ایک نواب زادہ کے سینے میں پیوست ہو گئی اور دوسری نے ان کے قاتل کو ڈھیر کر دیا۔ قائد ملت کی شہادت کے ساتھ ہی جمہوریت کا چراغ بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لئے اقتدار پرقبضہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔ بیگم لیاقت کے ایک انٹرویو کے مطابق، شہید ملت کو جلسہ ،عام میں نئے عام انتخابات کا اعلان کرنا تھا۔ اگر اس روز یہ اعلان ہو جاتا اور انتخابات ہو جاتے تو تاریخ بدل جاتی، کیوں کہ انتخابات سے نظام جمہوریت میں از سر نو توانائی پیدا ہو جاتی بہرحال جو کچھ ہوا۔ اس سے نوکر شاہی کے راستے ہموار ہوتے گئے۔
آج جب پاکستان 75واں قدم اٹھا رہا ہے، تو اس وقت ماضی کے اوراق پلٹ کر دیکھیںتو ایک دونہیں 75سے بھی زائد سازشیں ان اوراق میں پڑھنے کو ملیں گی، جنہیں پڑھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج پاکستان ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہوتا۔ ان ممالک کے ناموں میں بھی سر فہرست ہوتا جو اس کے ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو پاکستان کی تاریخ کے ان واقعات کااحاطہ کرتا ہے، جو وقوع پذیر نہ ہوتے تو حالات مختلف ہوتے،ذیل میںان واقعات کا سرسری جائزہ ملاحظہ کریں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر محاذ آرائی
پاکستان کی سیاست پر جس واقعےنے خاصے منفی اثرات مرتب کیلئےوہ 1948میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلےپر محاذ آرائی ہے گوکہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی علیحدہ قومی تشخص کی بنیاد پر تھا اور اس میں ہندوستان کی اکثریت ہندوئوںسے نفرت کے بجائے اپنے حقوق اور شناخت کی حفاظت پیش نظر تھی، مگر اس واقعے نے اس نظریے میں نفرت کا عنصر شامل کر دیا۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں میں ریاست کشمیر پر بھارت کی فوج کشی کے باعث یہ تشویش پیدا ہو گئی کہ کہیں پاکستان بھی ہندوستان کی اس فوجی مہم جوئی کا نشانہ، نہ بن جائے۔
اس واقعے نے جہاں دونوں ملکوںکے عوام کے درمیان نفرتوں کی فصل کاشت کی، جسے خطے کے عوام آج تک کاٹ رہے ہیں، وہی دو جنگوں اور بے شمار تنازعات کی وجہ پیدا کر دی ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید اسلحہ، بم بارود کے بجائے روٹی ،کپڑا ،مکان ریاست اور حکمرانوں کی ترجیح ٹھہرتا، جو سیاسی خلفشار اس محاذ آرائی کے باعث پیدا ہواوہ یقیناً پیدا نہ ہوتا۔ 1948میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ پہنچ چکا تھا اور سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر پر ایک قرارداد منظور کرلی تھی، جس کے تحت تین رکنی کمیشن بنایا گیا ،جس کو سلامتی کونسل کے تحت کام کرتے ہوئے بات چیت آگے بڑھانی تھی اگر اس وقت مسئلہ حل ہو جاتا تو آج صورتحال خاصی مختلف ہوتی۔
نو سال تک آئین نہ بنا
ملک کے نظام ترجیحات میں جس بات کو اولیت حاصل ہونی چاہئے وہ یہ تھی کہ جلد سے جلد آئین بنا دیا جائے، کیونکہ نئی سیاست کے لئے بنیادی پتھر آئین ہوتا ہے۔ لیکن نو سال تک حکومتیں آتی جاتی رہیں، مگر آئین میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، غور طلب بات یہ ہے کہ ہماری آئین ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کر لی تھی، جس پر کوئی اختلاف نہیں ہوا تھا، اس طرح آئین کے بنیادی مقاصد متعین ہو جانے کے بعد صر ف رسمی طور پر خانہ پری ہونی تھی، جو نہیں ہوئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ جبکہ بنیادی اور پہلا کام کرنے کا ’’آئین‘‘ بنانا تھا ، جب تک آئین نہ ہو،ریاست کا وجود غیر مستقل،بیچ میں معلق رہتا ہے۔ اس آئینی خلا کے دور میں ایک مرتبہ بھارت کی فوجیں پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے سرحدوں پر بھی آ گئی تھیں، صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے شہید ملت لیاقت علی خان دہلی گئے، جہاں پنڈت نہرو سے ملاقات کر کے ’’لیاقت نہرو معاہدہ‘‘ کرنا پڑا تھا۔
اس وقت یہ محسوس ہو گیا تھاکہ بعض طاقت ور عناصر چاہتے تھے کہ نئے انتخابات ہونے نہ پائیں۔ جمہویت کو جڑ پکڑنے کا موقع ہی نہ ملے، جبکہ بھارت نے آزادی کے بعد دو تین سال بعد نیا آئین منظور کر کے نئے انتخابات بھی کرا لئے تھے۔ بہرحال آئین نہ بننے اور قائد کی رحلت کے فوری بعد محلاتی سازشوں کا دور شروع ہو گیا۔ شکی مزاج لوگوں نے آئین میں تاخیر کو اس بات سے منسوب کردیا کہ کچھ گروپ یا لوگ نہیں چاہتے کہ جس تصور کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا، اس تصور کو آئینی تحفظ مل جائے اور وہ تصور تھا ،’’سلطانیٔ جمہور‘‘ یعنی طاقت، جس کا سرچشمہ عوام خود ہوں گے۔
وہ اپنے ووٹوں سے جس کو چاہیں منتخب کریں گے اور نظام حکومت اپنے ووٹ سے نافذ کریں گے، لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد سازشی عناصرکا مقصد یہ تھا کہ ملک میں جمہوریت پنپنے نہ پائے تاکہ ان کے پاور میں آنے کے راستے ہموارہو جائیں۔ اس سے پہلے کہ ملک کو آئینی راستہ پر ڈال کر آگے بڑھا جاتا۔ سیاست دان ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں لگ گئے۔ہر قوم کے لئے لازم ہوتا ہے کہ جب اس کو آزادی ملے تو اسے مستحکم اور باثمر بنانے کے لئے اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے اور اپنی ساری صلاحیتیں اپنی آزادی کو صحیح اور پختہ خطوط پر ڈالنے کیلئے بروئے کار لائے۔ تلخیاں بھلا دیں۔ اسرائیل اور بھارت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ وہاں بھی کافی جھگڑے اور اختلافات تھے، مگر آزادی ملنے کے بعد سب تلخیاں بھول کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے اور اپنے ملک کے تعمیر میں مصروف ہو گئے۔
کسی نے اپنے لئے جگہ پیدا کرنے کی خاطر آئینی خلا پیدا کرکے اپنے عوام کو انسانی حقوق سے محروم کرنے کی نیت سے ایسی فضا پیدا نہیں کی کہ جمہوریت کی جڑیں ہی کم زور ہو جائیں۔لیکن ہم نے کیا کیا، نو سال تک ملک کو آئین سے محروم رکھا۔ مارچ 1956تک برطانوی پارلیمان کے ایکٹ 1935کو ہمارے دستور کی حیثیت حاصل رہی، اگر آزادی کے بعد فوری آئین بن جاتا۔ جس کے قائد متمنی تھے تو آج پاکستان مستحکم نظام کے تحت ترقی کی منازل طے کر رہا ہوتا۔لیکن آئین کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنےوالے سیاست دانوں کو صرف اپنا آپ عزیز تھا۔
نواب زادہ خان لیاقت علی خان کی شہادت
بانی پاکستان کی وفات کے بعد نواب زادہ لیاقت علی نہ صرف تحریک پاکستان بلکہ مسلم لیگ کے بھی اہم رہنما تھے۔16 اکتوبر 1951کو جلسہ عام میں لیاقت علی خان کو ایک گولی سے شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت ایسے وقت میں ہوئی جب آئین سازی کا کام ہو رہا تھا، ملک میں عام انتخابات کے لئے سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا تھا کہ الم ناک سانحے نے پوری قوم کو افسردہ کر دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آئین بن جاتا، عام انتخابات ہو جاتے اور ملک میں جمہوریت پروان چڑھ جاتی ۔جس طرح 1973کے آئین میں بار بار ترامیم ہوتی رہیں، وہ بھی نہ ہوتیں۔
وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا گیا
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد نوکر شاہی کے لئے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے کے راستے کھل گئے۔ شہید وزیر اعظم کی کابینہ کے دو بیورو کریٹ اقتدار میں الجھ گئے۔ وزیر خزانہ غلام محمد نے وزیر اعظم بننے کیلئے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ لیکن گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نےخود وزیراعظم بننے کا فیصلہ کیا۔ اور وزیر خزانہ غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بن گئے۔ خواجہ ناظم الدین جوڑ توڑ اور سازشوں کے فن سے ناآشنا تھے۔ انہیں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ بے شمار مسائل انہیں ورثے میں ملے ۔گورنر جنرل ملک غلام محمد اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے درمیان اختیارات کے مسئلہ پر ابتداء ہی سے چپقلش جاری تھی۔ ملک غلام محمد نے تمام اختیارات پر قبضہ جما لیا تھا۔
گورنر جنرل کو آئین معطل کرنے کی راہ دکھائی جا رہی تھی۔ کراچی اور واشنگٹن کے بیچ میں گورنر جنرل اور امریکہ میں متعین سفیر محمدعلی بوگرا کے مابین ٹیلی فون پر باتیں ہوتی رہیں ۔دونوں طرف کے قاصد آتے جاتے رہے۔ پھر بوگرا امریکہ سے کراچی آئے لیکن وزارت خارجہ کے ملازم ہونے کے باوجود وزارت خارجہ نے انہیں اطلاع نہ دی۔گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو وزراء سمیت اپنی رہائش گاہ پر بلایا اور ان سے استعفیٰ طلب کئے۔خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل سے کہا’’آپ آئینی اور قانونی طور پر ایسا مطالبہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
آپ صرف آئینی گورنر ہیں۔ مجھے اسمبلی اور عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ ان حالات میں مستعفی ہونے سے انکارکرتا ہوں’’ اس کے باوجود گورنر جنرل نے وزیر اعظم کو برطرف کر دیا اور فرمان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’’خواجہ ناظم الدین اور ان کی کابینہ ملک کو درپیش مسائل کا مقابلہ کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔‘‘وزریر اعظم جب پرائم منسٹر ہائوس آئے تو ٹیلی فون کی لائنیں بھی کٹ چکی تھیں یہ سازشیں ایک عرصے سے ہو رہی تھیں، مگر وزیراعظم بےخبر تھے جو خود سراغرسانی کےمحکموں کے انچارج وزیر تھے۔ (خواجہ ناظم الدین 19اکتوبر 1951 سے 17اپریل 1953تک وزیر اعظم رہے)
گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی توڑ دی
17اپریل 1953کو امریکہ میں پاکستان کے متعین سفیر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی کابینہ کو نااہل قرار دیا تھا لیکن اس نااہل کابینہ کے چھ وزرا محمدعلی بوگرا کی نئی کابینہ میں شامل کئے گئے۔ گورنر جنرل غلام محمدعلی بوگرا کو اپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر وزارت عظمیٰ کا تاج پہنایا تھا لیکن محمد علی بوگرا نے جلد ہی پرزنے نکال لئے اور اولین فرصت میں ایسے قوانین کو ختم کرانے کے بل اسمبلی میں پیش کئے جنہیں استعمال کر کے گورنر جنرل سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز تھے۔ محمد علی بوگرا خواجہ ناظم الدین کا حشر دیکھ چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے گورنر جنرل کے اختیارات کو ختم کرنے کیلئے نہایت تیزی سے کام لیا۔
راتوں رات بل کی طباعت کرائی اور اسمبلی کے اجلاس سے قبل آئین ساز اسمبلی کا اجلاس منعقد کر کے چند منٹوں میں بل منظور کرا لئے۔ اسی روز بل حکومت کے گزٹ میں شامل ہو کر فوری طور پر نافذ العمل ہو گئے۔اور گورنر جنرل میں کابینہ کی ہدایت کا پابند بنا دیا گیا ۔محمد علی بوگرا چلے گئے۔ ان دنوں گورنر جنرل ایبٹ آباد میں صاحب فراش تھے انہیں جب بل کی منظوری کا معلوم ہوا تو غصہ میں فوراً کراچی آگئے اور وقت ضائع کئے بغیر اپنے حمایتی تلاش کرنے شروع کر دیئے۔ محمد ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ ،غلام محمد نبی پٹھان اور حمید الحق چوہدری، کے خلاف پروڈا کے تحت کارروائیوں کو کالعدم قرار دیا۔
میاں ممتاز دولتانہ کے خلاف زیر سماعت مقدمہ واپس لیا۔ مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں کے موثر سیاست دانوں کی حمایت حاصل کی ۔مشرقی پاکستان کا مضبوط گروپ گورنر جنرل کی پشت پناہی کرنے لگا تو گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی کو ختم کرنے کی تیاریاں شروع کیں۔ ادھر محمد علی بوگرا نے امریکہ کی تائید حاصل کی ان کا خیال تھا کہ امریکہ کا رویہ دیکھتے ہوئے گورنر جنرل کوئی مخالفانہ کارروائی نہیں کریں گے۔ لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ بیورو کریسی کے طاقت ور کمانڈر انچیف محمد ایوب خان اور چودھری محمدعلی امریکہ میں ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ رہے ہیں۔گورنر جنرل کو کراچی میں لمحہ لمحہ کی رپورٹ مل رہی تھی۔
ہر شخص کو پتہ ہو گیا تھا کہ گورنر جنرل وزیر اعظم سے ناراض ہیں انہیں نکالنا چاہتے ہیں۔ پورا ایک ماہ قیاس آرائیاں ہوتی رہیں مگر بوگرا کو کسی خبر رساں ایجنسی نے اطلاع نہیں دی کہ ان کے خلاف کراچی میں سازشیں ہو رہی ہیں جب کھیل کی تیاریاں ہو گئیں تو گورنر جنرل نے محمد علی بوگرا کو فوراً وطن واپس پہنچنے کا پیغام بھیجا جس پر بوگرا بھونچکا رہ گئے وزیر اعظم کے ہمراہوں نے انہیں گورنر جنرل کےحکم کی تعمیل پر زور دیا۔
جب محمد علی بوگرا وطن واپس آئے تو ایوب خان انہیں ائرپورٹ سے سیدھا گورنر جنرل ہائوس لے گئے۔ جہاں چوہدری محمد علی بھی موجود تھے اور وزیر اعظم کی جان بخشی تب ہوئی ہے جب انہوں نے پارلیمینٹ توڑنے، مرکزی کابینہ کو ازسر نو بنانے اور صوبائی وزارتوں کو برطرف کرنے کے اعلان پر دستخط کیے۔ 24اکتوبر 1954کو گورنر جنرل نے ہنگامی حالت کا اعلان کر کے آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید سازشوں کا سلسلہ آگے نہ بڑھتا اور جمہوری اقدار آگے بڑھتی رہتیں۔
چیف جسٹس منیر کا ’’نظریہ ضرورت‘‘
غلام محمد کا اسمبلی بر طرف کر دینا جمہوری روایت اور قومی یک جہتی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ برطرفی کے اس فیصلے نے آئینی بحران کو بھی جنم دے دیا۔ خواجہ ناظم الدین کا تعلق بنگالی سے تھا۔ قانون سے ماوراء برطرفی دیگر بنگالی سیاست دانوں کے لئے گورنر جنرل کا کھلا پیغام تھا کہ پنجاب کو بنگال کی قیادت منظور نہیں ۔ اسپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا فیصلہ قانوں کے مطابق اور غلام محمد کی خواہش کے برعکس ہوا۔
جسٹس کارنیلس نے یہ برطرفی غیر آئینی قرار دے دی توگورنر جنرل اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ چیف جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے برطرفی کا اقدام درست قرار دے دیا۔ اس عدالتی فیصلے نے وہ نظیر قائم کر دی جس کے بعد آنے والے ہر طالع آزما کو جواز اقتدار کے پروانے ملتے رہے۔
دوسری طرف قومی سالمیت میں بھی اس فیصلےکی وجہ سے دراڑیں پڑ گئیں۔اور اراکین اسمبلی اور سیاسی قائدین کے حوالے سے جو احترام انتظامیہ اور دیگر اداروں میں تھا وہ اگر ختم نہیں بھی ہوا تو کم از کم اس نچلی سطح تک ضرور آگیا کہ 1958ء میں بنگال اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی قتل کر دیا گیا۔ اگر گورنر جنرل غلام محمد نے ملکی مفاد کو ترجیح دی ہوتی یا عدالت عالیہ نے نظریہ ضرورت کے بجائے صرف ملکی و ملی ضرورت کو مد نظر رکھا ہوتا تو مارش لا اور ’’58ٹوبی‘‘ جیسی اصطلاحات ہماری تاریخ کا حصہ نہ بنتیں اورآج پاکستان جمہوری ریاست ہوتا۔
1956ءکا آئین
نو جنوری کو دستور ساز اسمبلی میں وزیر قانون آئی آئی چندریگر نے آئینی بل پیش کیا، جس کے تحت پاکستان کو ایک اسلامی ری پبلک بننا تھا، جس کا صدر صرف کوئی مسلمان ہی ہوسکتا تھا اور صدر کو مرکزی اور صوبائی مقننہ کے ذریعے منتخب کیا جانا تھا۔29 فروری کو دستور ساز اسمبلی نے اسلامی ری پبلک آف پاکستان کا پہلا آئین باقاعدہ طور پر منظور کرلیا اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کو آبادی سے قطع نظر برابر نمائندگی دی گئی تھی۔ پانچ مارچ کو گورنر جنرل اسکندر مرزا بلا مقابلہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوگئے اور مولوی فضل الحق کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا گیا۔نیا آئین بننے کے بعد چوہدری محمد علی اپنی پارٹی مسلم لیگ کا اعتماد کھو بیٹھے، جس میں سب سے بڑا اختلاف مغربی پاکستان کی وزارت اعلیٰ پر ہوا۔ چوہدری محمد علی نے وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔
حسین شہید سہروردی بطور وزیراعظم
چوہدری محمد علی کے مستعفی ہونے کےبعد حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بن گئے، جن کو ری پبلکن پارٹی اور عوامی لیگ کی مخلوط حمایت حاصل تھی۔ حسین شہید سہروردی نے خارجہ پالیسی کو بڑی حد تک مغربی ممالک کے قریب کرلیا، جس پر خود عوامی لیگ خاصی مایوسی ہوئی اور ان کی پارٹی کے رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ عوامی لیگ کے بعض رہنمائوں نے صلح کرانے کی کوشش کی، مگر حسین شہید سہروردی نے بے نیازی دکھائی اور جون 1956ء میں طویل دورے پر بیرون ملک چلے گئے۔ دس اکتوبر 1956ء کو سہروردی واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ری پبلکن پارٹی نے سہروردی کی حمایت ختم کردی ہے۔
اسکندر مرزا نے مطالبہ کیا کہ سہروردی استعفیٰ دے دیں لیکن وہ اس بات پر بضد رہے کہ اس کا فیصلہ جمہوری طریقے سے اسمبلی کے اندر ہونا چاہیے مگر اسکندر مرزا نے کہا کہ اگر استعفیٰ نہیں دیتے تو برطرفی کے لیے تیار رہیں جس پر سہروردی نے استعفیٰ دے دیا۔صدر اسکندر مرزا حسین شہید سہروردی کو فارغ کرکے قائدحزب اختلاف آئی آئی چندریگر کو وزارت بنانے کی دعوت دی، جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ چندریگر نے 18 اکتوبر 1957ء کو عہدے کا حلف اٹھایا مگر اگلے روز سے ہی مشکلات میں گھر گئے۔ مسلم لیگ کا موقف تھا اگلے انتخابات جداگانہ بنیادوں پر ہونے چاہئیں۔ جداگانہ کا مطلب ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنے نمائندے الگ کھڑے کریں اور مسلمان امیدوار الگ ہوں۔ ان اختلافات کی بنا پر آئی آئی چندریگر نے دسمبر 1957ء میں صرف دو ماہ وزیراعظم رہنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
وزیراعظم ملک فیروز خان نون
ملک فیروز خان نون نے نو دسمبر 1957ء کو جو وزارت قائم کی وہ پاکستان کے ابتدائی پارلیمانی دور کی آخری وزارت تھی۔ یہ چھ مخلوط جماعتوں کی حکومت تھی جسے چوں چوں کا مربہ کہا جاتا تھا۔ فیروز خان نون اپنی اکثریت کے لیے بنیادی طور پر عوامی لیگ اور سہروردی کی حمایت کے محتاج تھے۔ دراصل اس وقت نیشنل عوامی پارٹی ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہی تھی اور بین الاقوامی طاقتیں بھی نہیں چاہتی تھیں کہ عام انتخابات ہوں اور ان میں نیشنل عوامی پارٹی جیت کر حکومت بنالے کیوں کہ اس کے سارے رہنما ترقی پسند اور نسبتاً بائیں بازو کے تھے۔
حکومت نے نومبر 1958ء میں عام انتخابات کا اعلان کیا مگر سات اکتوبر کو صدر اسکندر مرزا نے مارشل لگا کر آئین معطل کردیا اور جنرل ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا جنہوں نے بیس دن بعد صدر اسکندر مرزا کو گرفتار کرکے ملک بدر کردیا۔مجموعی طور پر 1947ء سے 1958ء تک کا دور پارلیمانی جمہوریت کی ابتدائی منزلوں کا دور تھا۔ اگر 1956ء کے آئین کے تحت 1958ء میں انتخابات ہوجاتے تو شاید اس ملک کی تاریخ بالکل مختلف راستے پر چل نکلتی۔
سقوط ڈھاکا
قائد اعظم کا پاکستان اپنے قیام کے صرف 24سال بعد اپنی سلور جوبلی سےپہلے دو لخت ہو کر قوم کو ایک عظیم صدمے سے دو چار کر گیا۔ آج اس عظیم المیے کو تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ طے نہیں کیا جا سکا کہ پاکستان توڑنے کی دی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس وقت کی سیاسی قیادت پر جس نے مشرقی پاکستان کے بارے میں بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیے رکھا یا اس وقت کی قیادت پر جس نے عوامی لیگ کی باغیانہ سرگرمیوں کے سدباب کے لئے طاقت کے علاوہ کوئی مناسب حکمت عملی اختیار نہ کی؟حالات کی سنگینی کو اس نہج پر پہنچانے میں غیر ملکی طاقتوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے بھارت کے ساتھ متحد ہو کر بنگالی عوام کے ذہنوں میں مغربی پاکستان اور غیر بنگالیوں کے لئے نفرت کے بیج بوئے اور انہیں کھلی بغاوت پر آمادہ کیا۔
کسی نے حقوق کی جنگ لڑی تو کسی نے مفادات کی۔ کوئی آزادی کا علم بردار بنا تو کوئی غداری کا مرکتب ہوا، کوئی منظر پرر ہا تو کسی نے پس منظر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔مسلم بنگال سے پاکستان پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟ ان حقائق کو سمجھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں لیکن ایسا نہ ہوتا تو پاکستان بہت طاقت ور ہوتا۔ یہ بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دو لخت نہ ہوتا تو ماضی میں ہونے والی تمام سازشوں کے باوجود دنیا میں معاشی طاقت ہوتا۔ ایک مضبوط خارجہ پالیسی ساتھ پاکستان کا اثر و رزسوخ آج کے پاکستان سے کہیں زیادہ ہوتا۔ پاکستان کی بحریہ جنوبی ایشیا کی مضبوط اور طاقت ور ترین بحریہ ہوتی ، جس کے پاس مغرب اور مشرق دونوں اطراف سے بحرہ ہند تک رسائی ہوتی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی برطرفی اور پھانسی
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں برسراقتدار آنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1977ء میں انتخابات کرائے تو 9 سیاسی جماعتوں نے ان کے خلاف اتحاد پاکستان قومی اتحاد بنالیا، نتائج کے اعلان کو پی این اے نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا اور پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرے شروع کردیئے، حکومت نے پیرپگاڑا کے سوا قومی اتحاد کے تمام رہنمائوں کو گرفتار کرلیا۔ 23؍اپریل کو بھٹو نے مولانا مفتی محمود سے ملاقات کرکے سیاسی تصفیہ کی خواہش کا اظہار کیا، مذاکرات شروع ہوئے، معاہدہ طے پاگیا، بھٹو صاحب حجاز مقدس روانہ ہوگئے، واپس آئے تو حالات تبدیل اور قابو سے باہر ہوچکے تھے، بھٹو کے مقرر کردہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ملک پر تیسرا مارشل لا مسلط کردیا۔
وزیراعظم بھٹو سمیت پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے اہم رہنمائوں کو حراست میں لے لیا گیا، ضیاء الحق نے 90 روز کے اندر 18؍اکتوبر 1977ء کو عام انتخابات کرانے کا یقین دلایا، یہ وعدہ، وعدہ فردا ثابت ہوا، 18؍جولائی کو فوجی حکام نے وزراء، مشیروں، معاونین، ارکان پارلیمنٹ، سرکاری افسروں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کردیا، 23؍ستمبر 1977ء کو جناب بھٹو کو پی پی کے رہنما احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، ان کے ساتھ فیڈرل سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود، وزیراعظم کے چیف سیکریٹری سعید احمد خان اور سابق آئی جی پولیس رائو عبدالرشید اور ایف ایس ایف کے دیگر اہلکاروں کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
ایڈیشنل سیشن جج لاہور شیخ مظفر حسین نے 30؍جولائی 1977ء کو بھٹو کے خلاف استغاثہ کی ابتدائی سماعت کی،ایف ایس ایف کے افسران نے مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم کرلیا،کیس سیشن عدالت میں پیش ہوا، مگر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے مقدمہ ہائی کورٹ میں منگوالیا اور سابق وزیراعظم پاکستان کو پھانسی کی سزا سنادی۔405 صفحات پر مشتمل فیصلہ فل بنچ کے رکن جسٹس شیخ آفتات حسین نے تحریر کیا اور تمام ججوں نے اس سے اتفاق کیا، اپریل 1978ء میں اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی، 6؍فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے کثرت رائے کی بنیاد پر اپیل مسترد کردی فیصلہ چیف جسٹس ایف انوار الحق نے لکھا اور سنایا اور سزائے موت کو بحال رکھا۔
یہ فیصلہ 25 صفحات پر مبنی تھا، چیف جسٹس انوارالحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس کرم الٰہی چوہان اور جسٹس ڈاکٹر نسیم شاہ نے اپیل مسترد کرنے اور جسٹس دراب ایس پی پٹیل، جسٹس صفدر حسین شاہ اور جسٹس محمد حلیم نے اپیل کو منظور کرنے کا فیصلہ دیا تاہم ایک ووٹ کے فرق سے پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کا حکم سنادیا گیا۔ سپریم کورٹ نے 24؍مارچ کو نظرثانی کی اپیل بھی مسترد کردی اور 4؍اپریل 1979ء کوبھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ایک زیرک سیاست داں دنیا سے چلا گیا۔ بھتو کی پھانسی سے پاکستان کو جو نقصان ہوا، وہ گزرے وقت کے ساتھ پتا چلتا رہے گا۔
بینظیر کا قتل
ملکی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو حیران و پریشان کردیا۔ایک ایسی سیاست دان کو قتل کردیا گیا جو ملک کی دو بار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئیں،جو سیاست کی اتارچڑھائو سے واقف تھیں۔محترمہ بینظیر بھٹوآکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ اورفعال رہنما تھیں۔ ان کا وژن وسیع تھا ۔ وہ ممتاز سیاسی خاندان میں پیدا ہوئی تھیں۔ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی پرورش سیاسی طور پر کی تھی۔
بینظیر بھٹو بہت کم عمری ہی میں بڑے سانحات سے گزریں۔ تلخ و شیریں تجربات اور واقعات برداشت کئے۔ پہلے والد کا سانحۂ پھر دونوں جواں سال بھائیوں کی موت، پھر قید و بند کی صعوبتیں ، والدہ کی طویل علالت، یہ سب افسوسناک دردناک واقعات کا انہیں یکے بعد دیگر سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجود ان کے پائوں میں لغزش نہ آئی۔ وہ جمہوریت کی سیاست پر یقین رکھتی تھیں انہوں نے جن حالات میں پی پی پی کی قیادت سنبھالی یہ ان کے آہنی عزم کا آئینہ دار تھا۔
اس کے بعد انہیں جن نامساعد حالات سے گزرنا پڑا تب بھی وہ ثابت قدم رہیں اورہر مشکل کا پا مردی سے مقابلہ کیا۔ 27 دسمبر2007ءکو لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرکے روانہ ہوئی تھیں کہ گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔بینظیر بھٹو کے قتل سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا۔ غیر جمہوری قوتیں مزید مستحکم ہوئیں۔ جمہوری تحریک اور لبرل ازم کی قوتوں کو زک پہنچا۔ پاکستان جمہوریت اور خوشحالی کی راہ سے دور ہوگیا اور پاکستان بینظیر بھٹو جیسی محب وطن، عوام دوست، بیدار مغز اور نڈر رہنما سے محروم ہوگیا۔
یہ پاکستان کی 74 سالہ سیاسی تاریخ کے چند ایسے واقعات ہیں، جن کے نہ صرف سیاست بلکہ ملک پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے، اگر یہ رونما نہ ہوتے تو آج جمہوریت رواں دواں ہوتی، پٹری سے نہ اُترتی اور پاکستان جمہوری فلاحی ریاست ہوتا۔ سیاسی استحکام مضبوط ہو، اداروں میں توازن اور انصاف کا بول بالا ہوتا۔ معیشت کا پہیہ جام نہ ہوتا۔ عالمی سطح پر اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرتےہوئے ترقی کی جانب گام زن ہوتا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا۔ بہرحال جو ہونا تھا ہوچکااب آگے کی جانب دیکھیں۔ ماضی سے سبق سیکھیں اور قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لیے مل جل کر کام کریں۔