• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا اکلوتا بھائی، وقاص احمد بڑی منتّوں، مُرادوں اور دعائوں کے بعد پیدا ہوا۔ اُس کی ولادت پر ہم تینوں بہنوں کی خوشی دیدنی تھی۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے، جس روز وہ پیدا ہوا، ہمارے گھر پورا گاؤں اُمڈ آیا تھا۔ عورتوں نے دھمالیں ڈالیں، لڑکیوں نے خوشی کے گیت گائے، گائوں کے پُرخلوص لوگوں کی محبت کا یہی سادہ سا اندازہوتا ہے۔ دادی امّاں نے نوافل پڑھے اور ہم اُس دن اس خوشی میں اسکول بھی نہیں گئے تھے۔ ہماری امّی ہر نماز کے بعد اولادِ نرینہ کے لیے لازمی دعائیں کرتیں۔ 

اُن کے نزدیک بہنوں کے لیے بھائی کاہونا بہت ضروری تھا۔اور واقعی اُس کی آمد سے ہمارے لیے گویا ہر سُو بہاریں آگئی تھیں۔ اُس کی قلقاریاں اُسےگود میں اٹھانا، لوریاں سُنانا، مجھےایک ایک لمحہ اچھی طرح یاد ہے۔کچھ عرصے بعد ہمارے والد کا تبادلہ کراچی ہوگیا، تو ہم سب سرگودھا سے کراچی شفٹ ہوگئے۔ ہم تینوں بہنوں کا مقامی اسکول میں داخلہ کروادیا گیا۔ ہم اسکول جاتے وقار بھی تو ہمارے ساتھ اسکول جانے کی ضد کرتا۔ چند برس بعدہماری ایک اور بہن دنیا میں آگئی۔اُس وقت تک وہ پانچ برس کا ہوچکا تھا، اُسے پرائمری میں داخل کروایا گیا، تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، اکثرٹیچر مجھے بلاکر اُس کی شرارتوں کی شکایت کرتیں اور اُس کی شرارتیں بتاتے ہوئے اُن کی مسکراہٹ بے ساختہ ہنسی میں تبدیل ہو جاتی۔ 

ابّو جی بھی جب ہماری کارکردگی معلوم کرنے اسکول جاتے، تو اُس کی شرارتوں ہی کی داستانیں سُننے کو ملتیں۔ تاہم اس کی شرارتیں بے حد معصومانہ ہی ہوتی تھیں، اُن میں تشدّد، ضرر یا بدتمیزی کا کوئی عنصر نہیں تھا۔ میں نے اپنی پہلی نظم تب لکھی، تھی جس دن گھر میں اُس کی سائیکل آئی تھی۔وہ منظر اتنا پیارا تھا کہ دل چاہتا، وقت رُک جائے۔اُس کی سائیکل چلانے کی کوشش،خوشی سے چمکتا چہرہ اور اپنے اَن مول احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانا میرے لیے بہت مشکل تھا، تو مَیں نے ایک نظم کہی۔

عموماً بہن بھائی کھیل کھیل میں لڑ پڑتے ہیں۔ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا۔ایک دن امی نے وقاص کو ڈانٹا کہ بہنوں سے نہ لڑا کرو، تو بےساختہ بولا ’’پھر میرے لیے بھائی لے آئیں، اُس سے لڑ لیا کروں گا۔‘‘ایک دفعہ کسی فقیر کو ننگے پیر بھیک مانگتے دیکھا، تو بے چین ہوکر امّی سے کہا ’’ ابّو کے جوتے اسے آجائیں گے، اچھی امّی! اسے دے دیں ناں۔‘‘ اسی طرح ہنستے کھیلتے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور وہ میٹرک میں پہنچ گیا۔ وہ الیکٹریشن کا کام خود بخود ہی سیکھ چکا تھا۔ گھر کی چھوٹی موٹی چیزوں کی باآسانی مرمّت کرلیا کرتا۔پھرمحلے بھر کی خواتین کے چھوٹے موٹے کام بھی بخوشی کرتا۔ کسی کا سودا سلف لاتا،تو کسی کی موٹر،پنکھا ٹھیک کر دیتا۔

یہ وہ وقت تھا، جب وہ عنفوانِ شباب پر تھا اور ہم بہنوں اور ماں باپ کی کڑی نگرانی میں تھا۔ ایک دن میرے پاس دوڑتا ہوا آیا اور کہا ’’آپی !آپ جلدی امّی کے پاس جائیں، وہ پریشان ہیں۔‘‘ میں بھاگتی ہوئی گئی، تو واقعی وہ پریشان تھیں، کہنے لگیں ’’وقاص کے پاؤچ سے ایک تصویر ملی ہے۔ نہ جانے یہ کس کے چکّر میں پھنس گیا ہے۔‘‘ میرے استفسار پر الماری سے تصویر نکال کرلائیں، جسے دیکھتے ہی میری ہنسی چھوٹ گئی اور ساتھ ہی وقاص بھی بلند قہقہہ لگاتاہوااندر داخل ہوا اورامّی کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ 

مَیں نے ہنستے ہوئے کہا ’’امّی! یہ ایک کریم کا اشتہار ہے، جس میں یہ لڑکی بتا رہی ہے کہ گورا ہونا ہے،تو یہ کریم لگاؤ۔‘‘امّی نے میری وضاحت پر اطمینان کا سانس لیا۔ دراصل یہ اُسی کی شرارت تھی۔آج یہ سطور لکھتے ہوئے اس کی بے شمار یادیں، باتیں ذہن کوکچوکے لگارہی ہیں۔ میرا بھائی، وقاص بلا کا ذہین تھا، قرآنِ مجید پڑھنا شروع کیا، تو محض ڈیڑھ برس میں حفظ کرلیا۔ ہنستے کھیلتے چارٹرڈاکائونٹینسی کے ساتھ کمپیوٹر میں بھی ڈپلوما کرلیا۔ ہم بہنوں کے لیے وہ ایک سہیلی کی طرح تھا۔ ہماری خوب بیٹھکیں جماکرتیں۔ میٹرک کے بعد ہی سے اُس نے ہم پر اپنا رعب جمانا شروع کردیا تھا،کہتا ’’مَیں تمہارا بھائی ہوں، اس لیے میری عزّت کیا کرو۔‘‘

مجھے شروع ہی سے مس آسیہ کہتا، جب کہ ابّو کو پیٹھ پیچھے ڈیڈ اور امّی کو مام کہتا۔ محبت کا اپنا ہی انداز تھا، جب کہ اس کے بڑے پن کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ پہلی عیدی جو ہم بہنوں کو دی، وہ دس روپے فی کس تھی۔ اس کے پاس چالیس روپے ہی تھے، جو ہم چاروں بہنوں کو دے دیئے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اس قدر مصروف رہنے لگا کہ بمشکل ہی شکل دکھانے گھر آتا۔ میری شادی کے بعد جب میرا پہلا بیٹا ہوا، تو ماموں بننے پر اس قدر پُرجوش تھا کہ اُسے دیکھتے ہی بولا، ’’بہت خُوب صُورت ہو تم پیارے یوسف! (میرے بیٹے کا نام بھی خود رکھ دیا) یار! تُو نے تو آتے ہی مجھے ماموں بنا دیا.....‘‘

اس کی شادی کا معاملہ بھی انتہائی سادگی اور آسانی سے طے پایا۔ایک ہی نظر میں ایک مَن موہنی سی صُورت والی لڑکی امّی کو بھاگئی۔ اُسے لڑکی کی تصویر دکھائی، تو ایک نظر ڈال کے فوراً ’’اوکے‘‘ کہہ دیا۔ دوسرے دن لڑکی کے گھر والے آئے۔ تیسرے دن ہاں اورتین ماہ بعد ہی سادگی سے شادی ہوگئی۔ اللہ نے اسے تین خُوب صُورت بچّوں سے نوازا۔ پھر جب والد صاحب بیماری کے باعث بستر سے آلگے، تو ساری سرگرمیاں چھوڑ کر ابّو کی تمام ذمّے داریاں سنبھال لیں۔ کام کے سلسلے میں اکثر آئوٹ ڈور کا کام بھی ہوتا۔ اُس روز بھی حسبِ معمول کسی کام سے باہر گئے ابھی آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھاکہ اچانک امّی کے پاس اس کا فون آیا کہ ’’میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، دوست میرے ساتھ ہیں،جناح اسپتال جا رہا ہوں۔‘‘ 

فون سنتے ہی ہم سب بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے، ہمیں دیکھا، تو مسکرانے لگا، بظاہر کوئی بڑی چوٹ نظر نہیں آرہی تھی،ہم قدرے مطمئن ہوگئے،لیکن ہمیں خبر نہیں تھی کہ ایکسیڈنٹ میں گرنے کی وجہ سے حرام مغز میں چوٹ آنے کی وجہ سے اس کا پورا جسم سُن ہوگیا ہے۔ اس موقعے پر بھی شرارت سے باز نہیں آیا، میری طرف دیکھتے ہوئے کہا’’بس دو تین ماہ خدمت کروگی، تو ٹھیک ہوجائوں گا۔‘‘

ہر آنے جانے والے کو یہی دلاسا دیتا کہ بس چند روز میں صحت یاب ہوکر گھر چلا جائوں گا، لیکن رات کو اس نے میرے شوہر سے کہا ’’مجھے معلوم ہے، میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ میری وصیت ریکارڈ کرلیں۔‘‘ پھر اس نے مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی پوری وصیت ریکارڈ کروائی، اپنے معاملات بتائے، معافی تلافی کی۔ دراصل ایکسیڈنٹ میں اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ آپریشن کے لیے ڈاکٹر تیار نہیں تھے کہ کومے میں جانے کا خدشہ تھا۔ وہ دن ہم پر پہاڑ کی طرح تھے۔ ایک طرف ابّو اور دوسری طرف بھائی، دونوں بسترِ علالت پر تھے۔ ایسے حالات کا ہم نے کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ کون آیا، کون گیا، کچھ خبر نہیں تھی۔

اسی دوران ہمارے اوپر غم کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ والد صاحب، جو ہر مرحلے پر ساتھ ہوتے تھے، بیماری سے لڑتے لڑتے بالآخرسفرِ آخرت کو روانہ ہوگئے۔ والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد ہم چار بہنیں، بھابھی اور امّی چوبیس گھنٹے نقاب میں اس کے بیڈ کے گردموجود رہتے۔ لمحہ بھر وہاں سے ہٹ نہیں سکتے تھے۔ 

راول پنڈی سے چچا، محمّد اکرم لون سمیت کئی اور رشتے دار بھی آگئے تھے۔ پورے عرصے میں میرے باہمّت بھائی کی آنکھوں سے ایک آنسو تک نہ بہا۔اس کی آنکھیں کبھی شدّتِ تکلیف سے سُرخ ہوجاتیں، تو آنکھوں کو گھمانے لگتا۔ میرے لیے یہ سب ناقابلِ برداشت تھا، آخر ایک روز چیخ پڑی ’’وقاص! میرے بھائی، رولو، ہلکا کرو خود کو، اللہ نے آنسوئوں کو رحمت بنایا ہے۔‘‘ تب وہ یک دَم رو پڑا۔ ’’کیا امّی مجھے پھر سے پالیں گی؟‘‘ امّی نے تڑپ کر اُسے چوم لیا۔ ’’میرے بچّے! ہم سب ربّ کی رضا میں راضی ہیں۔ 

اُسی نے آزمائش دی ہے، وہی نکالے گا۔‘‘ بس، پھر اس نے ہمّت پکڑی، آپریشن ہوااور وہ ہوش میں آگیا۔ہم ایک بار پھر زندہ ہوگئے ۓ۔آپریشن کےبعد مسلسل ایکسرسائز اور علاج سے اس کے بازو کام کرنے لگے، لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ چند ماہ بعد دوبارہ تکلیف ہونے پر ٹیسٹ سے پتا چلا کہ آپریش کے دوران ڈالے جانے والے رِنگ میں کوئی مسئلہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد پھر آپریشن اور پھر علاج کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ قصّہ مختصر، وہ پورا دَور ہمارے مل کر رونے، مل کر ہنسنے، شکر کرنے،دعائیں کرنےاور نئی امیدیں باندھنے کا رہا۔

اس پورے عرصے میں بستر پر ہوتے ہوئے بھی اس کا بھرم ویسا ہی رہا۔کبھی خود ترسی کا شکار نہ ہو ا۔ہماری ہمّت اس کی ہمّت پر کھڑی تھی۔ ڈھائی سال تک امید و بیم اور صبر آزما آزمائش کے بعد بالآخر 21رمضان المبارک 2021ء کو ربِ کریم کا بلاوا آگیا۔اورہم سب بہنوں کا اکلوتابھائی، ماں کاچہیتا محض 32 سال کی عُمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اللہ تعالیٰ میرے والد محمّد خان اور میرے بھائی کی قبروں کو اپنے نور سےمنور فرمائے، آمین۔ (آسیہ عمران، کراچی)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار

……برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘……

٭ موت کاایک دن معیّن ہے (ایم آر شائق، کمال آباد، راول پنڈی کینٹ) ٭ماں تیری عظمت کو سلام (اعجاز احمد، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد) ٭بے ایمان (احتشام الحق حقی، کوٹلی، آزاد کشمیر) ٭اللہ جسے عزت دیتا ہے(محمد اسلم کھوکھر، ڈسکہ،سیال کوٹ) ٭تائی حمیدہ کی کہانی+ تھانے دار کا گھوڑا+موبائل شاپ +غار کی تلقین +بیت المال والی مائی+کھیس والا بابا (ظہیر انجم تبسم، خوشاب)٭ ایک مثالی پولیس آفیسر(محمداشفاق بیگ،ریلوے روڈ، ننکانہ صاحب) ٭بندوق کی گولی (غلام اللہ چوہان سلاوٹ، گزدر آباد، کراچی) ٭مَیں اپنی عزت کا سودا نہیں کروں گا (صابر علی، ٹنڈو جان محمد، میرپور خاص)٭خالہ جان کی آمد(صائبہ مشام مصطفیٰ، گیلان آباد، ملیر، کراچی)۔

……برائے صفحہ متفرق……

٭خّطے کی موجودہ صورتِ حال(ثمرین باری عامر)٭بے خطر کودپڑا آتشِ نمرود میں عشق (حفصہ اکبر علی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد)٭ رحمتِ خدا(ایم آر شائق، کمال آباد، راول پنڈی، کینٹ)٭لائی حیات، آئے،وبا لے چلی، چلے(امجد محمود چشتی، میاں چنوں)٭عید کیسے گزاریں، کورونا کے ساتھ (ارسلان اللہ خان، حیدر آباد)٭ ویکسینزا ور اینٹی باڈیز کی تاریخ و اہمیت+مصلح اعظم یعنی مرکز ِ اتحاد (نصرت عباس داسو،سولجربازار، کراچی)٭ ایک بھونرے کی آب بیتی (عائشہ رئیس، کراچی)٭ تبصرہ نگاری (آئمہ مصطفیٰ، آغا خان یونی ورسٹی، کراچی)٭ پاک، سعودیہ تعلقات ، نئی جہت سے ہم کنار (محمد عمر قاسمی) ٭نظام شمسی(محمد دانیال حسن چغتائی،کہروڑ پکا، لودھراں)٭ خونِ مسلم کے ذمّے دار مسلم حکمران (فرحت ندیم، کراچی)٭زنّاٹے دار تھپڑ (درشہوار قادری، کراچی)٭ اسلام اورجدّت کی ہم آہنگی (رائو سیف الزماں)٭سردار محمد مختار خان ایڈووکیٹ (پرویز الحسن طائر)٭ طارق عزیز کی برسی پر (مسز شگفتہ قیصر کریم)٭ ایران کی بدحال معیشت کا بنیادی سبب (محمد کاشف، نیو کراچی، کراچی)۔

تازہ ترین