اسلام آباد (مہتاب حیدر) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کامیاب جوان پروگرام پر عمل درآمد سے مطمئن نہیں تھے۔
تفصیلات کے مطابق، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ اور ریونیوز ڈاکٹر وقار مسعود نے اہم مسائل پر معاشی ٹیموں کے ساتھ اختلاف کے باعث استعفیٰ دے دیا ہے۔ جب کہ حکومت نے فوری طورپر چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کو بھی ہٹادیا ہے۔
باوثوق ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ایف بی آر اعدادوشمار کی ہیکنگ اور پھر اعدادوشمار کا نادرا سے اشتراک چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کو عہدے سے ہٹانے کی وجہ بنا ہے اور وفاقی کابینہ نے بھی ڈاکٹر محمد اشفاق احمد کو نیا چیئرمین ایف بی آر بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر وقار مسعود نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔ تاہم، وہ اب تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اس نمائندے کی جانب سے بارہا رابطے کی کوشش کے باوجود ان سے رابطہ نہیں ہوسکا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپنے استعفیٰ کی منظوری کے باضابطہ نوٹیفکیشن کے اجرا کا انتظار کررہے ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) میں 21 گریڈ کے افسر ہیں اور انہیں مالی امور کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مالیاتی مسائل پر تحقیق معروف بین الاقوامی میگزینز میں شائع ہوتی رہی ہیں۔
ان کے پاس فی الوقت دو اہم عہدے ہیں ان میں ایف بی آر کا رکن ان لینڈ ریونیو (آپریشن) اور ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز کے عہدے شامل ہیں۔ ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز کے عہدے پر رہیں گے یا کسی اور کی تقرری اس عہدے پر کریں گے؟ گزشتہ تین برس میں ڈاکٹر محمد اشفاق احمد ساتویں چیئرمین ایف بی آر بنے ہیں۔
اس پیش رفت کا آغاز گزشتہ اتوار اس وقت ہوا تھا جب وفاقی وزیر خزانہ اور ریونیو شوکت ترین نے ڈاکٹر وقار مسعود اور چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد سے کراچی میں ملاقات کی تھی اور عندیہ دیا تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کو تبدیل کرکے ڈاکٹر اشفاق کو نیا چیئرمین ایف بی آر بنایا جاسکتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر وقار مسعود پریشان ہوگئے تھے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ جیسے ہی وزیرخزانہ نے ڈاکٹر محمد اشفاق کی بطور چیئرمین ایف بی آر تقرری کا فیصلہ کیا تھا اسی وقت ڈاکٹر وقار مسعود نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وقار مسعود کامیاب جوان پروگرام (کے جے پی) پر عمل درآمد کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں تھے۔
ڈاکٹر وقار مسعود سابق سیکرٹری خزانہ کامران افضل کو عہدے سے ہٹانے میں اہم کردار ادا کرچکے تھے اور ان کی جگہ گزشتہ بجٹ 2021-22 سے قبل یوسف خان کو سیکرٹری خزانہ لگوانے میں اہم کردار ادا کرچکے تھے۔
جس کی وجہ سے اعلیٰ بیوروکریسی جو کہ فنانس ڈویژن میں کام کررہی تھی غلط پیغام گیا تھا، جب کہ موجودہ سیکرٹری خزانہ کا انتخاب بھی غلط ثابت ہوا۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے ان اختلافات کے آئی ایم ایف پروگرام پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
وزارت خزانہ میں اب ڈاکٹر وقار مسعود جیسا تجربہ کار کوئی نہیں ہے جو آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں قابل قدر کردار ادا کرسکے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر وقار مسعود کے مستعفی ہونے سے آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوسکتا ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اب تک مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے تاکہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں معاشی کارکردگی کا اندازہ لگایا جاسکے۔
ایف بی آر کی اب تک کی کارکردگی اطمینان بخش ہے لیکن حکومت توانائی کے شعبے اور دیگر ساختی اصلاحات کے حوالے سے بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ڈاکٹر وقار مسعود نے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی حمایت کی تھی لیکن وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف بحالی کے لیے اس طرح کی ہر تجویز کو مسترد کردیا تھا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے 2.77 ارب ڈالرز ملنے سے پاکستان کے غیرملکی کرنسی ذخائر نئے ریکارڈز کی جانب گامزن ہیں لیکن بڑھتی درآمدات اور آئی ایم ایف پروگرام معطل ہونے سے آنے والے دنوں میں غیرملکی کرنسی ذخائر میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کس طرح آئی ایم ایف پروگرام اور کامیاب جوان پروگرام چلاتے ہیں اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ روکتے ہیں۔