• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2009-10ء میں پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس اب تک سب سے زیادہ 14 بلین ڈالر ہوئی تھیں لیکن اس کے بعد اس کی ایکسپورٹس میں متواتر کمی آتی رہی۔ 2011-12ء میں یہ 12.34 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں تاہم 2012-13ء میں پاکستان کی ٹیکسٹائل اور کلاتھنگ کی ایکسپورٹس میں یورپ اور امریکہ میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی طلب میں اضافے اور صنعتی سیکٹر کو بجلی اور گیس کی قدر بہتر فراہمی کے باعث اس کی ایکسپورٹس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 5% اضافہ ہوا اور یہ13.06 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔اس دورانئے میں ٹیکسٹائل کی مختلف مصنوعات کی ایکسپورٹس کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ اضافہ کاٹن یارن 24%، کاٹن فیبرک 10.17%، ریڈی میڈ گارمنٹس 12.32% اور تولئے کی ایکسپورٹس میں 13.2% اضافہ ہوا ہے۔ 2012-13ء کیلئے حکومت نے ایکسپورٹس کیلئے 27 بلین ڈالر کا ہدف رکھا تھا لیکن ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث یہ حاصل نہیں کیا جاسکا اور ملکی مجموعی ایکسپورٹس24 بلین ڈالر تک رہی۔2013-14ء کیلئے وزارت تجارت نے ایکسپورٹس کا ہدف 31 بلین ڈالر جبکہ پلاننگ کمیشن نے اسی مالی سال کیلئے ایکسپورٹس کا ہدف26.6 بلین ڈالر رکھا ہے اور اس سال ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں کاٹن یارن 2.4 بلین ڈالر، کاٹن فیبرک 2.9 بلین ڈالر،ریڈی میڈ گارمنٹس1.9 بلین ڈالر، نٹ ویئر2.1 بلین ڈالر، بیڈویئر 1.8 بلین ڈالر، ٹاولز 839 ملین ڈالر کی ایکسپورٹس متوقع ہے۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر مصنوعات میں کھانے پینے کی اشیاء، چاول، حلال گوشت، سی فوڈ، لیدر، سیمنٹ اور جیولری کی ایکسپورٹس میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے11 ماہ میں سروس سیکٹر جس میں ٹریولنگ، کنسٹرکشن، انشورنس اور آئی ٹی سروسز شامل ہیں کی ایکسپورٹ میں 33.64% ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ 2012-13ء میں سروس سیکٹر کی مجموعی ایکسپورٹس 4.6 بلین ڈالر تھی جو اس سال بڑھ کر 6.15 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔
ہماری ایکسپورٹس کا 15% حصہ امریکہ، 10% عرب امارات، 9.5% افغانستان، 9%چائنا، 3% برطانیہ اور 2% جرمنی کو جاتا ہے۔ انڈیا کی سالانہ ایکسپورٹس تقریباً 300 بلین ڈالر ہے جسے دیکھتے ہوئے پاکستان کی ایکسپورٹس کارکردگی کو تسلی بخش نہیں قرار دیا جاسکتا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری ایکسپورٹ چند ممالک اور چند مصنوعات تک محدود ہے اور ہم غیر روایتی مصنوعات اور نئی مارکیٹوں کو فروغ نہیں دے سکے۔ ہم نے علاقائی تجارت کو بھی اپنی ایکسپورٹ ترجیحات میں اہمیت نہ دی جبکہ انڈیا، چائنا، افغانستان، ایران، وسط ایشیائی ریاستوں میں پاکستانی ایکسپورٹس کا بے انتہا پوٹینشل موجود ہے۔ سوائے چند ممالک کے پاکستان نے اپنے اہم تجارتی پارٹنر کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے نہیں کئے جس کی وجہ سے ہمیں ان ممالک کی ڈیوٹی فری ایکسپورٹس کیلئے مارکیٹ رسائی نہ مل سکی۔ گزشتہ 20 سالوں میں دنیا میں مختلف ممالک میں 20 آزاد تجارتی معاہدے (FTA) سائن کئے ہیں جس میں سے پاکستان کو صرف چار (FTA)تک رسائی ملی لیکن انہیں بھی ہم نے موثر انداز میں استعمال نہیں کیا۔ مثال کے طور پر سافٹا ایگریمنٹ 1994ء میں سائن کیا گیا تھا جس سے ہمیں اس بلاک کے مجموعی ٹریڈ کا صرف 10% حصہ مل سکا ہے جبکہ باقی 90% میں سے زیادہ تر انڈیا اور بنگلہ دیش نے حاصل کیا۔ ہم خطے میں علاقائی ممالک کے مابین زمینی راستے کے ذریعے ایکسپورٹس کو فروغ نہیں دے سکے جس نے ہماری علاقائی ممالک سے امپورٹ اور ایکسپورٹس کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ افغانستان کے زمینی راستے سے اپنی ایکسپورٹس نہیں بڑھا سکا۔ گزشتہ دور حکومت میں ترکی کے ساتھ زمینی راستے سے تجارت کو فروغ دینے کیلئے آزمائشی کارگو کنٹینرز استنبول بھیجے گئے تھے جو10 سے 12 دن میں ترکی پہنچ گئے تھے جبکہ سمندری راستے سے پاکستان سے ترکی کارگو پہنچنے میں تقریباً ایک مہینہ لگتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اور ترکی نے آزمائشی کارگو سروس کو مستقل اور کمرشل بنیادوں پر ابھی تک عملی شکل نہیں دی ہے۔ ہمارے ریلوے کا نیٹ ورک نہایت فرسودہ اور کارگو ترسیل کیلئے ناقابل استعمال ہے۔ ہماری پورٹس کے چارجز خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ہمارے کراچی اور پورٹ قاسم کے پورٹ چارجز سری لنکا سے 3 گنا اور سنگاپور سے 7 گنا زیادہ ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹس میں سالانہ 4.5% اضافہ ہوا ہے۔15 نومبر2012ء سے یورپی یونین نے75 پاکستانی مصنوعات کو31 دسمبر 2013ء تک ڈیوٹی فری ایکسپورٹس کی اجازت دی ہے جس میں سے 64 ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں جبکہ جنوری 2014ء سے یورپی یونین پاکستان کو اپنی نئی جی ایس پی پلس اسکیم میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دینے کیلئے میں نے وفاقی مشیر ٹیکسٹائل کی حیثیت سے یورپی یونین سے کئی کامیاب مذاکرات کئے اور بالآخر یورپی یونین نے اپنی جی ایس پی پلس اسکیم پر نظرثانی کرتے ہوئے اس اسکیم میں کوالیفائی کرنے والے ممالک کی زیادہ سے زیادہ ایکسپورٹ یورپی یونین کی مجموعی امپورٹس سے 1% سے بڑھاکر 2% تک کردیا ہے جس کے بعد پاکستان اس اسکیم میں کوالیفائی کرجاتا ہے جس کیلئے حکومت پاکستان نے باقاعدہ طور پر یورپی یونین میں درخواست دائر کردی ہے اور انشاء اللہ چند معاہدوں کی کابینہ سے توثیق کے بعد ہم جی ایس پی پلس اسکیم میں شامل ہوجائیں گے جس کے باعث پاکستان بھی بنگلہ دیش کی طرح یورپی یونین کو بغیر کسٹم ڈیوٹی مصنوعات ایکسپورٹس کرسکے گا جس سے پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹس میں 15% اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان کے وسط ایشیائی ریاستوں تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اور قازقستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدے (PTA) کیلئے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ 5 سالہ باہمی تجارت کا معاہدہ بھی سائن کیا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں 25% سالانہ اضافہ کیا جائے گا لیکن اس کیلئے پاکستان ایران کے مابین ریلوے اور زمینی راستوں سے تجارت کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا، پاکستانی اشیاء کی ایران امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی اور دونوں ممالک کے مابین تجارت میں حائل نان ٹیرف بیریئرز (NTB) کو ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان نے ایران کو آزاد تجارتی معاہدے کا مسودہ منظوری کیلئے بھیجا ہوا ہے۔ پاکستان اور چائنا کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے (FTA) ہونے کے بعد دونوں ممالک کے مابین تجارت تیزی سے بڑھی ہے اور آج پاکستان اور چائنا کے درمیان باہمی تجارت 15 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس میں سے زیادہ تر ایکسپورٹ کا حجم چائنا کا ہے۔ جلد ہی دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کرنے والے ہیں جس کے تحت دونوں ممالک مزید مصنوعات کی ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دے دیں گے۔ PC-FTA کے سلسلے میں TDAP میں ایکسپورٹرز کی میری سربراہی میں ایک میٹنگ میں ہم نے پاکستانی گارمنٹس اور ہوم ٹیکسٹائل کو دوسرے فیز میں چائنا ڈیوٹی فری ایکسپورٹس کرنے کی سفارش دی ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں بارہا ذکر کرچکا ہوں کہ چائنا کی کاروباری لاگت میں 20% سالانہ اضافہ ہورہا ہے جس میں زیادہ تر مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے چائنا انٹرنیشنل مارکیٹ میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں آہستہ آہستہ غیر مقابلاتی ہوتا جارہا ہے اور آج چائنا پاکستان سے کاٹن یارن اور فیبرک کا ایک بہت بڑا خریدار بن چکا ہے لیکن آنے والے وقت میں پاکستان کو چائنا کی گارمنٹس کی ایکسپورٹس جو تقریباً 200 بلین ڈالر ہے بھی غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے اس کا ایک حصہ مل سکتا ہے۔ چائنا کی مقامی مارکیٹ بہت بڑی ہے جس میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات چائنا کی مقامی برانڈز کے ساتھ جوائنٹ وینچرز کرکے اپنا مقام بناسکتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹس فیکٹریوں میں آتشزدگی سے سیکڑوں مزدوروں کی ہلاکت کی وجہ سے امریکہ اور یورپی یونین کے بڑے خریداروں نے بنگلہ دیش کو اپنے گارمنٹس آرڈرز منسوخ کردیئے ہیں اور ان گارمنٹس فیکٹریوں میں مزدوروں کیلئے مطلوبہ حفاظتی اقدامات کا جائزہ لینے کیلئے سروے ٹیمیں بھیجی ہیں جن کی ابتدائی رپورٹس کے مطابق اب تک بنگلہ دیش کی600 گارمنٹس فیکٹریوں میں سے صرف 6 فیکٹریاں بین الاقوامی سیفٹی معیارپر اتری ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں آئے دن ہڑتالوں اور انرجی کے نئے بحران کے باعث بھی گارمنٹس کے ایکسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا ہے۔قارئین کو میں یہ بات بتاتا چلوں کہ پاکستان میں گارمنٹس فیکٹریاں بنگلہ دیش کے مقابلے میں بین الاقوامی معیار پر بہتر اترتی ہیں اور ان میں موثر حفاظتی اقدامات پائے جاتے ہیں جس کا اندازہ کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں اندوہناک آتشزدگی کے بعد بین الاقوامی خریداروں کے دیگر فیکٹریوں کے جائزے کی مثبت رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے یہ آرڈرز پاکستان منتقل ہورہے ہیں۔ ہمارے ایکسپورٹرز ان آرڈرز کو خوش اسلوبی سے وقت پر مکمل کرکے انہیں مستقل آرڈرز میں تبدیل کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے حکومت کو صنعتوں کیلئے بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بناکر ملک میں امن و امان کی صورتحال کو ایک متفقہ قومی ایجنڈے کے تحت جلد از جلد بہتر بنانا ہوگا۔
تازہ ترین