• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک کے دوران نواز شریف حکومت کے لئے ایک خوشخبری یہ ہے کہ آئی ا یم ایف نے پاکستان کو5.3ارب ڈالر کا نیا قرضہ دینے کی اصولی رضامندی ظاہر کردی ہے جس کی حتمی منظوری ا مریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کے عید کے بعد پاکستان کا خصوصی دورہ کا مرحلہ مکمل ہونے پر 4ستمبر کو فنڈ کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا۔ فنڈ کے حکام نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اصرار پر پاکستان کو قرضہ دینے کا کوٹہ 348فیصد سے بڑھا کر425فیصد دینے پر جو رضامندی ظاہر کی ہے اس سے پاکستان کاادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ فنڈ کی کافی ساری شرائط پاکستان کب پوری کریگا اور کیا پاکستان کے عوام انہیں برداشت کرنیکی مالی اور اعصابی طور پر ہمت رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ موجودہ انرجی بحران نے جہاں معاشی طور پر صنعت و تجارت اور عوام سب کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے وہاں اس سے بے روزگاری ،غربت اور گرانی میں اضافہ سے عام آدمی کی قوت خرید میں کمی ہوئی ہے جس سے معاشرے کے منفی رجحانات میں اضافہہورہا ہے ۔ اس وقت ہمارے معاشی حالات تو یہ تقاضا کررہے ہیں کہ نئے سوشل کنٹریکٹ کی بنیاد رکھی جائے جس میں سب سے زیادہ فوقیت معاشی اور سماجی انصاف کو دی جائے ۔
اس کے علاوہ اس میں پارلیمنٹ ،عدلیہ ،فوج ،میڈیا اور سول سوسائٹی کو ایک ہی سوچ کے تحت پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے، اس کے لئے تمام قابل ذکر سیاسی اور دینی جماعتوں اور سماجی گروپوں کو ایک ٹیبل پر بیٹھ کر معاشرے کے موجودہ بگڑتے ہوئے چہرے کو بدلنے کے لئے سوچ بچار کرنا ہوگی جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان دوبارہ ایک قابل قدر، محنتی اور دہشتگردی کے رجحان سے پاک ملک کے طور پر ابھرے۔اس لئے نواز شریف حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے عملی ا قدامات کریں۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بجلی اور گیس چوروں کے خلاف مہم کو لیڈ کریں یہ کام ہر ضلع میں ان کے اراکین پارلیمنٹ محکموں کے حکام پولیس اور دیگر انتظامی اداروں کے حکام کو ساتھ لے کر کرسکتے ہیں۔ یہ وزیر اعظم کا منصب نہیں ہے کہ وہ یہ کام خود کریں۔ انہوں نے اگر چوروں کو پکڑنا ہے تو پھر پاکستان میں کرپشن کے بڑے بڑے چمپئن پکڑنے چاہئیں۔ یہ بجلی اور گیس چور تو اصولی طور پر ان محکموں کے حکام کو پکڑنے چاہئیں جنہیں اپنے اپنے ادارے میں ہر ہیرا پھیری کا عمل ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر یوٹیلٹی سروسز کے اداروں کی مانیٹرنگ کے لئے موثر نظام بنادیا جائے تو اس سے سالانہ کئی ارب روپے کی بچت بجلی اور گیس چوری سے تو ہو سکتی ہے لیکن ایف بی آر اور دیگر اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن روکنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بین الاقوامی معاہدوں چاہے وہ امریکہ سے ہوں یا چین یا کسی اور ملک کے ساتھ ان معاہدوں کی شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ چاروں صوبوں میں وزیر اعظم کے خصوصی مانیٹرنگ سیل بہترین اور قابل افراد کی نگرانی میں بنانے پر غور کیا جائے۔ وزیر اعظم روزانہ ہر ادارے سے رپورٹ طلب کرسکتے ہیں کہ یوٹیلٹی سروسز کے اداروں، ر یلوے، سٹیل مل، پی آئی اے، ایف بی آر اور ٹھیکہ داروں کے زمرے میں آنے والے تمام شعبوں میں کرپشن روکنے کیلئے کیا کارروائی ہوئی۔
دوسری طرف پارلیمنٹ میں بجلی ہو یا گیس کی چوری یا کرپشن کرنے والوں کے خلاف ایکشن کے لئے مجوزہ قوانین کو موثر بنایا جائے تاکہ ملک میں رول آف لاء کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس وقت ماہرین کے اندازے کے مطابق ایک فیصد بجلی چوری سے سالانہ8سے10ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اگر یہ خیال کرلیا جائے کہ23/24فیصد فنی نقصانات میں15فیصد بجلی چوری بھی شامل ہے تو یہ رقم150ارب روپے تک بن جاتی ہے۔ اس کو روکنے کا سمارٹ میٹرز کی تنصیب ہے لیکن کئی ماہرین بتاتے ہیں کہ کراچی ہو یا لاہور یا کوئی اور مقام بجلی چوری کرنے والوں نے اس کا توڑ(حل)بھی نکال لیا ہے۔ دوسری طرف واپڈا سٹاف کو ان کی تنخواہ یا گریڈ کے تناسب سے ”’پری پیڈ کارڈ“ اتنی ہی مالیت کے دے دئیے جائیں اس سے بھی بجلی چوری روکنے میں کافی مدد مل سکتی ہے مگر اصل کامیابی تو حکومت کو تب ہوگی جب سرکاری اداروں کے واجبات کی 100فیصد وصولی یقینی ہوسکے گی۔ بجلی اور گیس چوروں کی سرپرستی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے چاہے وہ ممبران پارلیمنٹ ہوں یا چیمبروں کے اراکین یا کسی اور عہدے پر فائز ہوں۔ نئے عمرانی معاہدے میں اگر سماجی انصاف اور قانون سب کے لئے ایک ہوگا تو اس سے کئی مسائل حل کرنے آسان ہوسکتے ہیں۔ گیس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ پوری صنعت اور کمرشل سیکٹر میں اگر کافی زیادہ ہے تو لاتعداد گھریلو صارفین بھی یہی کام کرتے ہیں۔ یہ بات تو ہر جگہ کہی جاتی ہے کہ بجلی ہو یا گیس کی چوری میں اندر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر یہ کام اتنا زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔
پچھلے دنوں فیصل آباد میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے گیس چوروں کے خلاف ایکشن لیا تو ہمیں 1998ء کا زمانہ یاد آگیا۔ اس وقت بھی میاں صاحب نے فیصل آباد ہی میں کرپشن کے کسی کیس میں ایک معتبر مقامی شخصیت کو ہتھکڑی لگوائی تھی۔ بہرحال اب حالات مختلف ہیں۔ بہتر ہے کہ پبلک سروسز کے اداروں کے حکام کو مجبور کیا جائے کہ وہ یہ کام خود کریں ورنہ اور انتظامی امور سے توجہ بھی ہٹ سکتی ہے جس سے خود حکومت کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں کیونکہ معاشرے سے کرپشن اور چوری روکنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہا جارہا ہے اس کے لئے رول آف لاء ہی کے ذریعے سب کچھ ممکن ہے۔
تازہ ترین