• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کی رحلت تحریک آزادی کا بہت بڑا نقصان ہے۔ مگر یہ راہ برحق ہے اور سب کو وقتِ مقررہ پر یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ ان کا انتقال طویل علالت کے بعد ان کے گھر سرینگر میں ہوا۔ جہاں وہ غاصب بھارتی حکومت کے ہاتھوں گزشتہ بارہ سال سے نظر بند تھے۔ بلاشبہ ان کی رحلت سے کشمیر ی یتیم ہوگئے۔ ان کی عمر92سال تھی۔سید علی گیلانی 27ستمبر1929کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے گائوں زوری منز میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین 1950میں اپنے گائوں سے ڈورو سوپور ہجرت کرگئے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم بوٹنگو سوپور کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول سوپور میں داخلہ لیا۔ آپ نے بطور استاد عملی زندگی کا آغاز کیا اوربارہ سال تک مقبوضہ وادی کے مختلف اسکولوں میں فرائض سرانجام دیئے۔ سید علی گیلانی نے 1953میں جماعت اسلامی جمو ں و کشمیر میں شمولیت اختیار کی۔اُنہیں پہلی بار 28اگست 1962 کو بھارتی پولیس نے گرفتار کیا اور وہ تیرہ ماہ جیل میں قید رہے۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں گرفتار ہوئے اور پابند سلاسل رہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے زندگی کے تقریباً 14سال مختلف جیلوں میں قید و بند میں گزارے۔

سید علی گیلانی جماعت اسلامی کی طرف سے 1972,1973 اور 1987 میں حلقہ سوپور سے ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن 30اگست 1989کو ریاستی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ واضح رہے کہ سید علی گیلانی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔ ان کا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ خاص رابطہ اور تعلق رہا اور ان کے ساتھ کافی ملاقاتیں رہیں۔ 7اگست 2004 کو جماعت اسلامی کے ساتھ تحریری مفاہمت کے بعد انہوں نے تحریک حریت کی بنیاد رکھی۔ سید علی گیلانی تحریک حریت اور حریت کانفرنس کے بیک وقت چیئرمین بھی رہے۔ وہ رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے ہیں۔ وہ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ سید علی گیلانی شدید جسمانی عوارض کا شکار ہونے کے باوجود تحریک آزادی کے روح رواں تھے۔ تمام تر بھارتی مظالم، تشدد، لالچ اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے ڈٹے رہے اور ان کے قدم کسی بھی لالچ اور دبائو سے نہیں ڈگمگائے۔ صحت کے مسائل کی وجہ سے وہ 30جون 2020کو کل جماعتی حریت کانفرنس سے طویل وابستگی کے بعد علیحدہ ہوئے۔ سید علی گیلانی 2003سے 2020تک کل جماعتی حریت کانفرنس سے وابستہ اور اس کے چیئرمین رہے۔

کوئی شک نہیں کہ سید علی گیلانی آزادی کشمیر کی مضبوط اور توانا آواز تھے۔ وہ پاکستان کے قدردان اور زبردست حامی تھے۔کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے پاکستان کی طرف سے ہر فورم پر حمایت اور کوششوں کے بڑے معترف تھے۔ ان کے یہ تاریخی الفاظ کوئی کشمیری نہیں بھلا سکتا، ’’ہم پاکستانی ہیں۔ پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ پاکستان نے 73ویں یوم آزادی کے موقع پر سید علی گیلانی کو ’’نشان پاکستان‘‘ کا اعزاز دیا۔ یہ ایوارڈ سید علی گیلانی کی طرف سے حریت رہنمائوں نے جمعہ کے دن ایوان صدر اسلام آباد میں وصول کیا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں ان کی رحلت کے سوگ میں قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا گیاہے۔ صدر مملکت عارف علوی ، وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وفاقی وزراء صوبائی وزرائےاعلیٰ، صوبائی گورنرز، وزیراعظم آزاد کشمیر، وزرا، پاکستانی اور آزاد کشمیر کے تمام سیاسی رہنمائوں، بھارت کی قید میں کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور پوری پاکستانی قوم نے سید علی گیلانی کی وفات پر رنج ،دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف اگرچہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کا خوف اب بھی بھارتی حکومت پر طاری ہے۔ ان کی وفات کی خبر کے ساتھ ہی بھارتی ناجائز قابض حکومت نے پوری مقبوضہ وادی میں سیکورٹی کو مزید سخت اور کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے ان کے گھر کا محاصرہ کرکے خاردار تاروں کے ذریعے راستے بند کر دیئے ہیں اور کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

مختلف اطلاعات ہیں کہ بھارتی غاصب فوج نے ان کے نماز جنازہ میں صرف ان کے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں کو شرکت کرنے دی۔ ان کے لواحقین کا اصرار تھا کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کو مزار شہدا میں دفن کرنے دیا جائے لیکن ظالم بھارتی حکومت نے یہ اجازت بھینہیں دی اور زبردستی ان کی تدفین ان کے گھر کے قریب صبح ساڑھے چار بجے حیدر پورہ میں کرائی گئی۔ یہ سب کچھ کھلے عام بھارتی بربریت اور دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ شاید ہی ایسا کوئی ظلم ہو جو غاصب اور دہشت گرد بھارت نے مظلوم کشمیریوں پر نہ ڈھایا ہو۔ جو کچھ مرحوم سید علی گیلانی کی وفات سے لے کر نماز جنازہ اور تدفین تک بھارتی حکومت نے کیا یہ انسانیت کی ایک اور بدترین تذلیل اور عالمی طاقتوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھارت کے خلاف سخت ایکشن لے یا انصاف، دہشت گردی کے خاتمے اور انسانیت کے پرچار کا ڈھونگ بند کرے۔ پاکستان کشمیر کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت بدستور جاری رکھے گا جب تک کہ وہ حقِ خودارادیت حاصل نہیں کر لیتے اور یہی سید علی گیلانی مرحوم کا خواب تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!

تازہ ترین