• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حوا کی بیٹی کو تحفظ کون دے گا؟

جنسی بےراہروی سے آج اخبار بھرا پڑا ہے، حقوقِ نسواں کے ثنا خوان کہاں ہیں، کوئی دن نہیں جاتا کہ کوئی عورت ذات زیادتی، قتل اور جنسی ہراسانی سے دوچار نہ ہوتی ہو، کیا مدینہ کی ریاست کے دعویداروں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی شرم کا مقام ہو سکتا ہے؟ عثمان بزدار سے لے کر ملک کے سب سے بڑے ذمہ دار تک کے لئے حقوقِ نسواں کی روز افزوں پامالی لمحۂ فکریہ ہی نہیں، المیہ بھی ہے۔ حکومت اور پولیس کی سرپرستی میں جرم پل رہا ہے۔؎

جب توقع ہی اٹھ گئی یارو

ایسی حکومت سے کیا گلہ کرے کوئی

مہنگی اشیا کے اس بازار اور سستی عزت کی لوٹ سیل میں کہیے غریب عوام کے پاس کیا بچا ہے، اب سمجھ آ رہی ہے کہ میڈیا پر قدغن کیوں لگائی جا رہی ہے، کیا لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بیٹی پیدا ہوتے ہی خاکم بدہن اس کا گلہ گھونٹ دیں، یہ ہم اس دور میں نہیں جا رہے جب بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، نبی رحمتؐؐ کی امت میں یہ بربریت کیا ان کے مشن کو برباد کرنے کی بہیمانہ کوشش نہیں؟ آج خواتین، طالبات، بچیاں پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص محفوظ نہیں، یہ ملک کے چرواہے وطن عزیز کو کس طرف لے جا رہے ہیں، یہ ہے پنجاب گورنمنٹ کی رِٹ جس کی رَٹ لگائی جاتی ہے مگر ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے، یہ خانوں، وڈیروں، سرداروں اور ان کے حواریوں کا ملک ہے وہ سیاہ کریں سفید کریں روا ہے، ان کی بیٹیاں محفوظ، مفادات محفوظ، مال و متاع اندر باہر محفوظ، البتہ یہ عوام الناس ہیں جو ووٹ دے کربھی ہر لحاظ سے عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔

٭٭٭٭

زَن، زَر، زمین کے حقوق

کہنے کو تو یہ سرنامہ ایک حرف کی تکرار ہے، ان حروف کا حق اس وقت مارا گیا جب انسان نے اپنے گناہ ان کے سر تھوپ کر خود کو گناہ سے پاک سمجھ لیا۔ آج زَن، زَر اور زمین کے ساتھ ساری دنیا کے انسان جو پاپ کر رہے ہیں، اور جس ظالمانہ انداز میں ان کے غلط استعمال میں پیش پیش ہیں، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ خدا کی زمین ہم نے اجاڑ کر رکھ دی، اب زن بےتکریم، زر ذریعہ فساد اور زمین گنجی، کوئی دس درخت کاٹتا ہے مگر اگاتا ایک بھی نہیں، فضائوں کو آکسیجن دینے والے اشجار ہی لگ بھگ باقی نہیں رہے، موسم برہم ہو گئے۔ ہم نے اپنے بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک یہی سنا ہے کہ سارے فساد کی جڑ زن، زر، زمین ہے، اس ستم گری کو بھلا کیا کہا جائے، میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے جب کہا جاتا ہے، زن، زر، زمین فساد کی جڑ ہے، شاید یہ محاورہ بھی فورٹ ولیم کالج کی ایجاد ہو، ہم انسان اعتدال کے راستے سے ہٹ گئے ہیں، آبادی بڑھانے کے حوالے سے بھی میلوں دور چلے گئے ہیں، کاکے، ناکے، بانکے عام ہیں، تربیت اور قانون کی عملداری جام ہے، آج زن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس میں زن، زر، زمین کا عمل دخل نہیں؟ زمین سے اس کا فطری لباس چھین کر اسے بےلباس کردیا، پرندے ہری شاخ ڈھونڈتے ہیں، آخر کواس نظام نے کائیں کائیں کے سوا دنیا کو کیا دیا، ٹائون پلاننگ کا نام و نشان ہوتا تو سو گھروں کے لئے ایک پارکضرور ہوتا، تجاوزات تو ہمارے گناہوں سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔

٭٭٭٭

ہنسو اور ہنسائو

ایک زمانہ تھا کسی کی بغل میں انگلی ڈال کر کتکتانیاں کرنے سے پتھر کا صنم بھی ہنس دیتا، اب گوشت پوست کے بت بھی نہیں ہنستے، حالانکہ طبیب لوگ کہتے ہیں قہقہہ بہترین ٹانِک ہے اور ہمارا اپنا بھی یہ عالم تھا کہ؎

میں نے لڑکپن میں ہنسنے کی کوشش کی

کہ بزرگوں کا نوکدار جوتا یاد آیا

چاہے بزرگوں نے قہقہوں میں سر کے بال سفید کئے ہوں، ہنسنے ہنسانے والے کو آج ہمارے معاشرے میں ناپسندیدہ کردار سمجھا جاتا ہے، ہمارے دین میں بھی ہنسنے ہنسانے سے نہیں روکا گیا، ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے صحابیؓ سے کہا تمہاری بات پر خدا بھی آسمان پر مسکرا رہا ہے، یہ تو بھلا ہو ٹی وی مراکز کا کہ ایک آدھ پروگرام ہنسانے والے فنکاروں پر مبنی پیش کرکے اس دور ِناہنجار میں ہنسی کا سامان پیدا کردیتے ہیں۔ بہت سے سنجیدگی سے عاری افراد ہنسنے والے کو غیرسنجیدہ شخص قرار دیتے ہیں، شاید ہنسی بھی حسد کاسامان بن گئی ہے، ہمارے دانشور بھی ہنسنے سے گریز کرتے ہیں، یعنی ایک ہنسی قدرت نے عطا کی تھی وہ بھی چھپا لی، تعلیمی ادارے چھوٹے ہوں، بڑے ہوں، اساتذہ طلبہ کے سامنے ہنسنے سے پہلو بچا کر اپنی کم علمی کی طرف نکل جاتے ہیں، شاید ڈرتے ہیں کہ ہنس دیے تو رعب داب نہیں رہےگا، عالم ہنسانے یا ہنسنے سے کبھی نہیں ڈرتا کہ علم رکھتا ہے، جس خالق نے انسان میں رونا رکھا ہے، ہنسنا بھی وافر مقدار میں ودیعت کیا ہے، اس لئے ہنسی کو روکنا ناشکری ہے، ہم نے اگرچہ ہنسایا تو نہیں لیکن اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔

٭٭٭٭

کشمیر بنے گا پاکستان

...o بھارت علی گیلانی کی میت سے بھی خوفزدہ۔

ٹیپو سلطان کی کہانی تاریخ نے دہرا ڈالی۔

...o خواجہ آصف: مفاہمت مزاحمت کے بیانیہ میں ن لیگ پھنس کر رہ گئی۔

دوکشتیوں میں پائوں رکھنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔

...o تجزیہ کار: شیریں مزاری کی طرف سے نوجوانوں پر پابندیاں لگانے کی تجویز افسوسناک، شرمناک ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جوانی پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، البتہ نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کو تلقین کی جا سکتی ہے، رہی بات ٹک ٹاک کی تو یہ ٹھیک ٹھاک ہے، ہمارا ہاضمہ خراب ہے۔

٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین