• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اس بات پر مصر ہے کہ ہماری بہترین معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں گزشتہ 3سال کے دوران ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔ اسی ترقی اور خوشحالی سے آگاہ کرنے کے لئے گزشتہ دنوں حکومت نے کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک تقریب منعقد کی جس میں بھر پور تقاریر کی گئیں پارٹی ترانوں، نغموں اور خوبصورت دھنوں کے ذریعے ایک جشن کا ماحول بنا کر عوام کو اپنی3سال کی اس کارکردگی کے بارے میں بتایا گیا جو ڈھونڈنے سے بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ شکر ہے حکومت نے صرف ایک تقریب منعقد کی ورنہ حکومت کی جس طرح کی کارکردگی ہے تقریبات کا دائرہ ملک بھر میں بھی تو بڑھایا جاسکتا تھا اور پھر3سال کی کارکردگی بتانے کیلئے3ماہ کی تقریبات بھی منعقد کی جاسکتی تھیں۔ حکومت میں ہونے کے یہی تو مزے ہیں کہ جو کارکردگی ہوتی بھی نہیں وہ بھی نظر آجاتی ہے اور پھر جب آپ حکومت میں ہوتے ہیں تو سب اچھا ہوتا ہے اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پھر صرف بیانات اچھے ہوتے ہیں، اپوزیشن کے دنوں میں جس طرح کے اچھے اچھے بیانات پی ٹی آئی والے دیتے تھے آج کل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی والے دیتے نظر آتے ہیں۔

جہاں تک حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کے منشور اور انتخابی وعدوں کو سامنے رکھ کر حکومت کی 3سالہ کارکردگی کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کیونکہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کروڑ نوکریاں، 50لاکھ گھر، جنوبی پنجاب صوبہ، پسماندہ علاقوں کے احساس محرومی کا خاتمہ، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، مقامی حکومتوں کے انتخابات، معیشت کی بحالی، آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں سے نجات، کرپشن کا خاتمہ اور بے رحمانہ احتساب کم از کم یہ سب اِس طرح ہوتا نظر نہیں آتا جس کی امید پر لوگوں نے تحریک انصاف پر اعتماد کرتے ہوئے اسے کامیاب کرایا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نے اپنی 3 سالہ کارکردگی پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ہمیں مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آج زر مبادلہ کے زخائر 27 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ غریب لوگوں کی بحالی کے لئے احساس پروگرام اور کامیاب جوان پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ ملک کے کئی شہروں میں لنگر خانے کام کر رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار میں 18فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ 10 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے تعمیرات کے شعبے میں سیمنٹ کی فروخت میں 42فیصد اضافہ ہوا اسی طرح موٹر سائیکل، ٹریکٹر کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ اور گاڑیوں کی فروخت 85فیصد تک بڑھ گئی ہے جبکہ پاکستان میں نئے ڈیموں کی تعمیرپرکا کام جاری ہے۔یقیناً جب وزیر اعظم یہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں تو پھر ایسا ہی ہوگا کیونکہ ان کے بقول یہ اعداد و شمار اسحٰق ڈار والے نہیں بلکہ اصلی ہیں تو پھر واقعی ملک معاشی طور پر مضبوط اور عام لوگوں کی حالت زار میں بہتری اور خوشحالی آچکی ہوگی ۔ہم نے تو 2018 میں بھی ان پر اعتماد کر کے ووٹ دیا تھا آج بھی آنکھیں بند کر کے ان کی باتوں پر یقین کر لیں گے مگر ملک میں مہنگائی سے پریشان عوام کو کون یقین دلائے گا کہ حالات بہتر ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے 35ماہ میں قرضوں میں15137ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ وزیر اعظم سمیت حکومتی وزراء معیشت کی بہتری کے دعوے کر رہے ہیں اور کرنٹ اکا ؤنٹ خسارے میں بہت حد تک کمی، ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے، برآمدات میں مسلسل اضافے، ریوینیو کی وصولی اور ملکی زرِمبادلہ میں ریکارڈ اضافے کو کامیاب حکومتی معاشی پالیسیاں قرار دے رہے ہیں تو پھر بار بار معاشی ٹیم کو کیوں تبدیل کیا جاتا رہا اور مہنگائی پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا؟ اگر حکومتی وزراء سے روز افزوں بڑھتی مہنگائی سے متعلق سوال کیاجائے تو ان کے پاس کوئی دلیل اور اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے کوئی جواب نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ اس کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں اور تنقید کے نشتر برساتے رہتے ہیں، جواب میں اپوزیشن والے بھی کسی سے کم نہیں اور وہ بھی اِنہیں آٹا چور، چینی چور، ادویات چور اور پٹرول چور جیسے القابات سے نوازتے ہیں اور بیچارے عوام گزشتہ3 برسوں سے مختلف تقاریر،تقاریب، بیانات، ٹاک شوز اوراسمبلی اجلاسوں میں یہی کُچھ سنتے آ رہے ہیں اور یہی دھینگا مشتی جاری ہے بجائے یہ کہ وہ عوام کی بھلائی و بہتری پر فوکس کریں، خواہ مخواہ اپنی توانائیاں ان فضولیات پر ضائع کر رہے ہیں۔

تازہ ترین