• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گذشتہ ہفتے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے دورہ کابل کے بعد پاکستان ، چین ، روس ، ایران ، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان، اور تاجکستان کی انٹیلی جنس قیادت نے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے جس میں افغان صورتحال اور علاقائی سکیورٹی پر بات چیت کی گئی، غیر ضروری بھارتی سرگرمیوں پر پاکستانی تحفظات پر غور ہوا۔ علاقائی سلامتی ، دیرپا امن و استحکام کے قیام پر مشاورت کی گئی اور یکساں لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ یہ اجلاس اسلام آباد ہی میں ہونے والی ان سفارتی پروپیگنڈے کا حصہ ہے جو افغانستان میں پیدا نئی صورتحال سے متعلق اور ان خدشات کے ازالے کیلئے اہم ہیں جو بھارت کی شہ پر دہشت گردوں کے پھر سے سرگرم ہونے کے بارے میں ہیں ۔ طالبان کی جانب سے کی جانے والی اس وضاحت کی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی پاکستان اس کی قدر کرتا ہے تاہم بیس برس سےنیٹو افواج کی آڑ میں بھارت نے وہاں دہشت گردی کی تربیت دینے کے جو مراکز قائم کر رکھے تھے اور جو افرادپاکستان میں کی جانے والی کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں یہ اب بھی خطے میں موجود ہیں اور یہاں کسی بھی جگہ نقل و حرکت کر سکتے ہیںتاہم یہ بڑی حوصلہ افزا بات سامنے آئی ہے کہ ان کے خلاف متذکرہ آٹھ ممالک نے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اجلاس نہ صرف دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بلکہ مستقبل میں سیاسی ، دوستانہ، تجارتی و ثقافتی تعلقات آگے بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ افغان طالبان علاقائی اور عالمی تعلقات کی بدلتی ہوئی سوچ کے ساتھ ہر معاملے میں اعتدال پسندی کا مظاہرہ کر ر ہے ہیں۔ ان کی یہ سنجیدگی نہ صرف خطے کے حق میں ہے بلکہ خود افغان عوام کے اندراس کے حوالے سے ایک مثبت سوچ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم افغانستان میں اس وقت بڑی تعداد میں بھارتی خفیہ اداروں کے اہل کار مختلف گروپوں کی شکل میں موجود ہیں اور طالبان حکومت کے اقدامات کو سبوتاژ کرنے کیلئے پڑوسی ممالک میں منفی کارروائیوں کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ان ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سکیورٹی کی صورتحال ، دہشت گردوں کی جانب سے دیگر ممالک پر حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے ، شدت پسندی کے پھیلائو، مہاجرین کی آمد، منشیات کی اسمگلنگ اور بین الاقوامی جرائم کے امکانات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان ممالک کی افغانستان سے متعلق پالیسی میں بڑی حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے اوران کے مابین مختلف تجارتی منصوبے بھی چل رہے ہیں۔ ترکمانستان کے ساتھ چار ملکی( تاپی) گیس منصوبہ زیر عمل ہےجس میں افغانستان ، پاکستان ، بھارت شامل ہیں جبکہ چین بھی اس میں شمولیت کا خواہاں ہے۔ ادھر وسطی ایشیائی ممالک پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں شرکت کے متمنی ہیں۔ روس اور پاکستان کے درمیان بعض منصوبوں پر بات چیت کا عمل جاری ہے جن میں مفاہمت کی بعض یادداشتوں پر دستخط بھی شامل ہیں۔ خود پاکستان اور افغان سرزمین پر بسنے والے لوگ مذہب ، ثقافت اور تہذیب و تمدن کی مشترکہ اقدار کی بنیاد پر ہمیشہ آپس میں ملتے جلتے اور ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ آپس کی رشتہ داریاں، تجارت ، آزادانہ نقل و حرکت سے قیام پاکستان کے بعد بھی دونوں ملکوں کے درمیان نام کی سرحد قائم رہی۔ طالبان اور اسلام آباد میں ہونے والی متذکرہ آٹھ ملکی انٹیلی جنس قیادت ملاقات کے تناظر میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس کے تحت اختیار کی جانےوالی مشترکہ حکمت عملی سے خطے میں امن دشمن قوتوں کا خاتمہ ہو سکے گا تاہم یہ رابطہ عارضی نہیں ہونا چاہئے۔

تازہ ترین