• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں پی ٹی آئی حکومت کی 3سالہ کارکردگی پر رپورٹ شائع ہوئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے اگست 2018ءمیں پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک کی حکومتی کامیابیوں کے دعوے کئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوران مہنگائی میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ گزشتہ 3سال میں آٹا 45سے 80روپے ، چینی 55سے 130روپے، خوردنی تیل اور گھی 140روپے سے320روپے اور دودھ 80روپے سے بڑھ کر 140روپے فی کلو ہوچکا ہے جبکہ دالیں، سبزیاں اور دیگر اشیائے خور و نوش بھی عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ اسی طرح بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے افراطِ زر (مہنگائی) میں اضافہ ہوا ہے۔

عمران خان کے وزیراعظم بنتے وقت ڈالر 124روپے کاتھا۔ گزشتہ سال اگست میں ڈالر 168.43روپے کی سطح پر آگیا تھا لیکن بعد میں گرکر 152 روپے پر پہنچنے کے بعد 11ستمبر تک دوبارہ ڈالر 168روپے کی سطح پر آگیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک اہم وجہ 40,000روپے کے انعامی بانڈز کے بدلے مارکیٹ سے ڈالر خریدنا ہے جس سے ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال جولائی اور اگست میں امپورٹ 72فیصد اضافے سے 12.1ارب ڈالر اور ایکسپورٹ 27 فیصد اضافے سے 4.6ارب ڈالر ہے جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 120فیصد اضافے سے 7.5ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ تجزیئے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ2018ء میں تجارتی خسارہ 33.7ارب ڈالر سالانہ تھا جسے 2020ء میں کم کرکے 23ارب ڈالر کی سطح پر لایا گیالیکن گزشتہ مالی سال یہ دوبارہ بڑھ کر 30.7ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس دوران ایکسپورٹس میں کوئی نمایاں اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جو 25.3ارب ڈالر رہیں جبکہ امپورٹس 26فیصد اضافے سے 56ارب ڈالر تک پہنچ گئیں اور 30.7ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ زرمبادلہ کے ذخائر پر ناقابل برداشت بوجھ بنا۔گزشتہ 3سال میں پاکستان کا مالی خسارہ جی ڈی پی کا 7فیصد سے زائد رہا جو گزشتہ 33برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت نے گزشتہ 3سال میں 6910ارب روپے قرضے لئے جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک حکومتی قرضوں کا مجموعی حجم 4547ارب روپے ہوچکا تھا۔ اسی طرح پاکستان کے بیرونی قرضے جو اگست 2018میں 93ارب ڈالر تھے، پی ٹی آئی حکومت کے 3سالہ دور میں 24ارب ڈالر اضافے سے 117ارب ڈالر تک پہنچ گئے جس میں سے حکومت کو رواں مالی سال 14ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں۔ اسی طرح جون 2018ءمیں 1148ارب روپے کے گردشی قرضے جون 2021ء میں بڑھ کر دگنا سے زائد 2327 ارب روپے ہوگئے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف بار بار بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مطالبہ کررہا ہے حالانکہ حکومت گزشتہ 3سال میں بجلی کے بنیادی نرخوں میں 9روپے فی یونٹ یعنی تقریباً 40 فیصد اضافہ کرچکی ہے۔

حال ہی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) کی ایمرجنگ مارکیٹ سے تنزلی کرکے فرنٹیر مارکیٹ میں شامل کردیا گیا ہے جس سے سرمایہ کاروں پر منفی اثر پڑے گا۔ اسی طرح خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے اور واپڈا کی وعدے کے مطابق نجکاری یا ری اسٹرکچرنگ نہ کئے جانے کے باعث حکومت کو ہر سال 500ارب روپے ان اداروں میں جھونکنا پڑرہے ہیں جو قومی خزانے پر طویل عرصے سے بوجھ ہیں تاہم گزشتہ 3سال میں ایف بی آر کی کارکردگی نہایت شاندار رہی جس نے ہر سال ہدف سے زائد ریونیو وصول کیا جس پر میں چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق اور اُن کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ 3سال میں ریونیو وصولی 3800ارب روپے سے بڑھاکر 4700 ارب روپے تک لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میں گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا کو ’’روشن ڈیجیٹل اکائونٹ‘‘ کامیاب اسکیم پر بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اب تک 2.1ارب ڈالر منتقل کئے جاچکے ہیں۔ یہ رقوم بیرون ملک پاکستانیوں کی امانت ہیں جو حکومت کو واپس کرنی ہیں لہٰذا ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے ایکسپورٹس، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا۔ میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ مالی سال ریکارڈ 29ارب ڈالر اور اس سال جولائی اگست میں 5.4ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھیجیں۔

گزشتہ سال بڑے درجے کی صنعتوں میں 9فیصد گروتھ دیکھنے میں آئی جن میں سیمنٹ، آٹو موبائل، کنسٹرکشن اور فارماسیوٹیکل سیکٹرز کی گروتھ قابل ذکر ہیں لیکن زیادہ ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے والی چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں SMEs میں گروتھ دیکھنے میں نہیں آئی جبکہ ایگریکلچر سیکٹر میں کپاس کی پیداوار میں 23فیصد کمی سے ٹیکسٹائل صنعت کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا۔ کپاس ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت کا خام مال ہے جس کی ہر سال 12سے 13ملین بیلز کی طلب ہے لیکن گزشتہ سال کپاس کی 3سے 4ملین بیلز کم پیداوار کی وجہ سے بیرون ملک سے کپاس امپورٹ کرنا پڑی جو زرمبادلہ کے ذخائر پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ حکومت کی 3سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کرتے وقت میری حکومت کو تجویز ہے کہ آئندہ دو سال میں مہنگائی پر قابو پانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں تاکہ کھانے پینے کی اشیا کی طلب و رسد کا توازن درست کیا جا سکے کیونکہ عوام فائنل اننگ میں 22سال تک دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔

تازہ ترین