کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ ‘‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پھر کثیر المحوری نظام کی طرف جارہی ہے، افغانستان کو افغانستان رہنے دیں اور انہیں موقع دیں کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائیں جس طرح ایران میں ایک جمہوری نظام ہے، عمران خان کی پوری زندگی تضادات سے بھری ہے۔ پی ڈی ایم پورے تن من کے ساتھ زندہ اور ٹھیک ٹھاک ،صحت مند ہے۔ پروگرام کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کے بارے میں تو دو آرا موجود تھیں کچھ تو کہہ رہے تھے کہ پی ڈی ایم نے مولانا فضل الرحمن کا سیاسی وزن بڑھا دیا ہے کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ان کا اس سے قد کاٹھ کم ہوگیا کیونکہ پیپلز پارٹی وغیرہ نے ان کو استعمال کرکے اکیلے چھوڑ دیا۔ لیکن افغانستان میں جو تبدیلی آئی ہے اور وہاں پر طالبان کی جو حکومت قائم ہوئی ہے اس کے بارے میں عام خیال ہے کہ اس میں پاکستان کے اندر بھی مولانا فضل الرحمن کا سیاسی قد کاٹھ اور وزن بڑھا دیا ہے۔اس لئے ہم نے ضروری سمجھا کہ مولانا فضل الرحمن کو زحمت دیں اور ان سے جان سکیں کہ افغانستان اور خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان میں سیاست کے میدان میں وہ آگے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں، پی ڈی ایم میں ان کی جماعت پرانی تنخواہ پر ہی گزارا کرے گی۔ سربراہ جمعیت علمائے اسلام ، مولانا فضل الرحمن نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ تغیرات کا تعلق ہمارے اساسی اور بنیادی موقف سے ہے جہاں بھی مسلمان اپنی سرزمین کا دفاع کررہے ہیں چاہے وہ کشمیری ہوں۔ 2001ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیاتو ہم وہ واحد طاقتور اور توانا آواز تھے جب ہم نے امریکا مردہ باد کا نعرہ لگایا اور اس حملے کو جارحیت کہا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کے اپنے بھی سیاسی حالات تھے لیکن افغانستان اپنے تئیں وہاں کے حالات سے دوچار تھاجنگ جاری رہی اور20 سال تک ان نوجوانوں نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا۔آج جو فتح حاصل کی ہے اس پر پوری امت مسلمہ میں خوشی کی لہر دوڑی ہے۔ اس میں سپر طاقت کو شکست ہوئی ہے جہاں پر لوگ اپنے حق موقف کو لے کر لڑتے ہیں جب وہ کامیاب ہوجاتے ہیں توپھر ہم پر لازم ہے کہ ہم انہیں مبارکباد دیں اور خوشی کا اظہار بھی کریں۔ اس میں مسلمان اور کافر کا نہیں جائز اور ناجائز کا سوال ہے اور کون امریکا کی شہ پر آیا اور کابل پر قبضہ کیایہ سارا سلسلہ اس حوالے سے ایک موقف رہتا ہے۔ آپ کسی کے ملک میں یہ مداخلت تو نہیں کرسکتے کہ وہ کونسا نظام اپناتے ہیں یا خارجہ تعلقات کے اصول کیا رکھتے ہیں لیکن آپ ایک کاز کو سامنے رکھتے ہوئے حمایت اور مخالفت کرسکتے ہیں۔ جو لوگ2001ء کے بعد افغانستان آئے اور صدارتی محل پرقابض ہوئے ہمارا موقف ہمیشہ ان کے خلاف رہا ہے۔ افغانستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی خفیہ نہیں تھی بلکہ جب سوویت یونین کے خلاف جہادلڑا جارہا تھا تو باقاعدہ امریکا کی حمایت اور آشیر باد ان کو حاصل رہی۔یکدم سے کیا ہوگیا کہ ان پر جب9/11کا الزام آیا تو بغیر کسی تحقیق کے24 گھنٹوں کے اندراندر انہوں نے اسامہ بن لادن کو ذمہ دار کہا۔ نوجوانوں کوامریکا کی جانب سے خوف اور لالچ دیا گیا کہ آپ چلیں، آپ کو وہاں پرپناہ اور پرتعیش زندگی مل جائے گی۔ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے بڑی بڑی ملازمتیں آپ کو وہاں پر مل سکیں گی اس بنیاد پر وہ وہاں بھاگے۔ حالانکہ جب طالبان نے فتح حاصل کی تو انہوں نے عام معافی کا اعلان کردیا۔ جو انہوں نے دنیا کے سامنے رکھا ہے چاہے امریکا کے ساتھ دوحہ معاہدے کی صورت میں رکھا ہے یا پھر اس معاہدے پر جب عملدرآمد شروع ہوا، چاہے چار پانچ مہینے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ پھر انہوں نے د س پندرہ دن کے اندر اندرافغانستان کا تقریباً احاطہ کرلیا۔ اس وقت جو انہو ں نے اقدامات کئے اور جو عوام سے بات کی اب ہم نے انہیں دیکھنا ہے۔ انقلابی حکومتیں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں کہ جو انقلاب لاتی ہیں اور فتح کرتی ہیں ابتدا میں وہ ہی حکومت کرتی ہیں، خمینی نے کسی اور کو شامل کیا۔ انہوں نے بیورو کریسی کو برقرار رکھا ہے بیورو کریسی میں ماہرین ہوتے ہیں اصل نظام وہ بیورو کریسی ہی چلاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمارا اس وقت جو سسٹم ہے یہ ہم عبوری انداز سے چلائیں گے ہم آئندہ آنے والے حالات میں ایک مستقل نظام کو طے کریں گے تاکہ اس میں پورے افغانستان کی شمولیت ہو۔ پچھلی مرتبہ جب طالبان کی حکومت تھی تو روس ان کو دشمن کی نظر سے دیکھتا تھا، چین نے بالکل افغانستان میں دلچسپی نہیں لی اور امریکا نے صرف افغانستان پر فوکس کیا، دنیا کی ڈپلومیسی میں اس وقت یہ فرق تھا۔ آج روس، چین بھی طالبان کی فتح کے بعد وہاں دلچسپی لے رہا ہے دنیا پھر کثیر المحوری نظام کی طرف جارہی ہے۔ ہم پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست کو مناتے ہیں خود کو ایک آزاد ریاست کہتے ہیں۔ ابتدا میں تو پاکستان میں بھی الیکشن نہیں ہوابعد میں نامزد لوگوں کی ایک دستور ساز اسمبلی بنی۔ افغانستان کو افغانستان رہنے دیں انہیں موقع دیں کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائیں جس طرح ایران میں ایک جمہوری نظام ہے۔ ملا ہیبت اللہ کا نام میں نے تب سنا جب طالبان نے انہیں امیر المومنین کہا۔