صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے منگل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں ملک و قوم کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے حکومت کی جامع اور ہمہ جہت حکمت عملی کے روشن پہلوئوں کو تفصیل سے اجاگر کیا اور اپوزیشن کو مشورہ دیا کہ وہ شور شرابے کی بجائے تحریک انصاف کی حکومت کی کامیابیوں کو تسلیم کرے۔ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ سے اپنے روایتی خطاب میں انہوں نے ملکی معیشت، کورونا کے تباہ کن اثرات، افغانستان میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلی، بھارت کے انتہا پسندانہ ہندو توا فاشسٹ نظریے سے خطے کے امن کو لاحق خطرات، مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و جبر، پاک چین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی مذموم کوشش، ملک میں جمہوریت کے فروغ اور انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال، انتخابی اصلاحات کی ضرورت، فیک نیوز پر قابو پانے کے معاملے، دہشت گردی کے خاتمے، کرپشن کا ناسور ختم کرنے کی کوششوں، ملکی معیشت اور سرمایہ کاری میں سمندر پار پاکستانیوں کے کردار سمیت مختلف مسائل و مشکلات اور معاملات کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ ملک اس وقت نئی اور مثبت سمت کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ تین سال میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں اور ملک اس وقت صنعتی انقلاب سے گزر رہا ہے۔ بڑھتی آبادی سے وسائل پر پڑنے والے بوجھ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے تعلیم صحت، خوراک، ٹرانسپورٹ، نکاسی آب اور توانائی جیسی ضروریات زندگی عوام تک پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ افغانستان کی نئی صورتحال کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کے سیاسی و عالمی وژن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کو وہ بات لاکھوں انسانوں کی جانیں اور اربوں ڈالر خرچ کر کے سمجھ میں آئی جو عمران خان 20سال سے کہہ رہے تھے۔ دنیا کو سیاسی تدبر پر ان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرنی چاہئے۔ صدر کی تقریر کے دوران صحافی پارلیمنٹ کے باہر متنازع میڈیا قانون کے خلاف دھرنا دیے بیٹھے تھے اور اسپیکر کے حکم پر انہیں اندر آنے سے روکنے کیلئے ایوان کی پریس گیلری کو تالے لگا دیے گئے تھے ۔ اپوزیشن نے اس کے خلاف احتجاج کیلئے بینر اٹھا کر اسپیکر ڈائس کا گھیرائو کر لیا، حکومت کے خلاف میڈیا کے حق میں نعرے لگائے اور ایوان سے واک آئوٹ کر گئی۔ برطرف سرکاری ملازمین اور سول سوسائٹی کے لوگ بھی اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کررہے تھے۔ صدر نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کی کارکردگی کو شور شرابے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اپنے منصب کے تقاضوں کے تحت حکومت کی تعریف اوراپوزیشن پر تنقید صدارتی تقریر کے خاص پہلو تھے۔ بلاشبہ حکومت وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق ملک کو فلاحی ریاست بنانے اور معاشی ترقی کیلئے ان تھک کوششیں کر رہی ہے۔ بیرونی محاذ پر مسئلہ کشمیر اور بھارتی چیرہ دستیوں کو اجاگر کرنے کیلئے اس نے خصوصی اقدامات کئے ہیں لیکن بہت سے مسائل ابھی حل طلب ہیں۔ ان میں مہنگائی اور بیروزگاری سرفہرست ہے۔ ادائیگیوں کا توازن بھی محل نظر ہے اور روپے کی قدر بھی مسلسل گر رہی ہے۔ قانون سازی کا عمل زیادہ تر حکومت کے غیر لچک داررویے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ کام چلانے کیلئے صدارتی آرڈی ننسوں پر انحصار کیا جا رہا ہے جو پارلیمانی نظام کار کی نفی ہے۔ جن اقتصادی اشاریوں کے مثبت ہونے کا چرچا کیا جاتا ہے وہ مجموعی ملکی معیشت کا حصہ ہیں جس کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں ایک عرصہ لگتا ہے جبکہ لوگوں کو استعمال کی ضروری اشیاقوت خرید کے مطابق ملنا ان کا بنیاد ی اور روزمرہ کا مسئلہ ہے۔ بیروزگاری ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت کو باقی قومی معاملات کی طرح ان مسائل کے حل پر فوری توجہ دینی چاہئے۔