• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں وزیر اعظم جیل سے آرہے ہوتے ہیں یا پھر جیل جارہے ہوتے ہیں ، حتی کہ وہ رحلت فرما جائیں یا پھر تاریخ کے کسی گمنام گوشے میں دفن ہو جائیں۔ یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے ، ضروری نہیں کہ ہر وزیر اعظم اسی چکر کا پابند ہو ، کچھ استثنیات بھی موجود ہیں ۔ لیکن یوسف رضا گیلانی اس دائرے میں گھومنے والے ایک منفرد وزیر اعظم کے طور پر سامنے آ رہے ہیں ۔ موصوف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں ، سیدھے جیل جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ڈبل پروموشن لیکر اقتدار میں واپس آتے ہیں ۔ اب پھر ان کے جیل جانے کا وقت قریب ہے ، پچھلے کامیاب تجربات کے پیشِ نظر اب ان میں بلا کا اعتماد پیدا ہو گیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے جیل نہ ہوئی کوئی تربیت گا ہ ہوئی جہاں اگلے دور اقتدار کے اہم ترین عہدے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے انہیں ضروری کورس کرنا ہوں اور اس عہدے کیلئے اپنی موزونیت بڑھانی ہو۔ اسی لئے تو وہ سمنات اور نوٹسز کو خاطر میں نہیں لا رہے اور نہ ہی متعلقہ حکومتی اداروں کو مہمان نوازی کا موقع دے رہے ہیں۔ سفری یا ٹرانزٹ قسم کی مہمان نوازی پر وہ یقین نہیں رکھتے ، جائیں گے تو سیدھے بڑے مہمان خانے میں جائیں گے۔لیکن حکومتی ادارے بھی بضد ہیں کہ انہیں ضابطے کی خدمت کا موقع دئیے بغیر وہ بڑے مہمان خانے نہیں جا سکتے ، اسی لئے خبریں ہیں کہ نیب نے ان کے شایانِ شان قسم کا ایک کمرہ تیا ر کر چھوڑا ہے ۔
تازہ ارشاد انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ اسلام آباد میں ہوں ، جس میں ہمت ہے گرفتار کرلے ۔ اس سے بھی زبردست بیان وہ تھا جس میں انہوں نے فرمایا کہ مجھے استثنی حاصل ہے۔ مجھے تو انکے دونوں ارشادات پڑھ کر کافی حیرت ہوئی لیکن ایک دو دن گزر جانے کے بعد مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ وہ درست ہی تو فرما رہے ہیں ۔ اگر کسی میں ہمت ہوتی تو انہیں گرفتار کر لیتا ، اور ضرور انکو بھی استثنی حاصل ہوگا جبھی تو کسی میں اب تک انکو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں۔ ورنہ کوئی عامی تو تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کسی کانسٹبل سے بھی پنگا لے لے مبادا کسی ڈکیتی کے پرچے میں ہی نہ دھر لیا جائے جس میں میں دو چار نامعلوم ملوث ملزموں میں سے ایک شناخت شدہ ملزم وہ خود بن جائے۔ استثنی والی بات گیلانی صاحب نے خوب فرمائی ہے ۔چلیں پچھلے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کوئی تو ارتقاء ہوا ہے ۔ پہلے ہمیں صرف ایک ہی دلیل سننے کو ملتی تھی کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود ایک بھی کیس ثابت نہیں ہوا۔ حالیہ دورِ اقتدار کی نئی ایجاد استثنی والی دلیل بھی خوب ہے اب تو کوئی کیس بن ہی نہیں سکتا۔ دیکھئے اب آگے آگے ہمارے قائدین ارتقاء کی کون کون سی منزلیں طے کرتے ہیں۔ بہرحال مقدمات کا جو بھی مقدر ہو، یوسف رضا گیلانی جب سرخرو ہو کر نکلیں گے تو یقیناً صدرِ پاکستان ہی بنائے جائیں گے کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم سے بڑا عہدہ تو کٹھ پتلی صدر کا ہی ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی ان تمام کٹھ پتلی عہدوں میں ”اصل کام “ کرنے کی آزادی تو ہوتی ہے ، پھر باقی غیر ضروری کام کرنے کیلئے کون اتنا مرا جا رہا ہے۔
پینسٹھ سال گزر گئے ، جو بھی آیا پہلے سے بڑھ کے آیا۔ یوسف رضا گیلانی نے توکچھ زیا دہ ہی نام بنالیا۔ایک اضافہ وہ یہ کر گئے کہ ملک و قوم کی بھرپور خدمت میں انہوں نے اپنے خاندان کے دیگر افراد ، خصوصاًسید زادے پدران کو بھی پوری طرح شامل رکھا، ورنہ تو ایوب خان کے بعد سے عوام بھول ہی گئے تھے کہ بڑے لوگوں کے سپوت بھی انکی قدرو منزلت بڑھانے کا اتنا بڑا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔ہاں تھوڑی بہت کوششیں اس ضمن میں ضرور ہوتی رہی ہیں ،لیکن اتنی بڑی کامیابی کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔پھر انکے جانشین پرویز اشرف نے ان پر بھی سبقت لی اور اپنے قلیل ترین دور میں ان سے بھی بڑھ کر نام کماگئے۔اسی روایت کو برقرار رکھنے کے آثار اب نئی حکومت میں بھی نظر آ رہے ہیں، دو ایک مہینوں میں ہی دو تین بڑے کارنامے انکے کے بھی سامنے آ گئے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
جہاں تک مجھے یا د پڑتا ہے ، پاکستان میں کسی بھی صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیرِاعلی کی بڑے بڑے کارنامے کرنے پر عدالتوں سے باقاعدہ عزت افزائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ ہو جائے اور ہمارا قانونی نظام کسی طرح درست طور پرکام کرنا شروع ہوجائے تو ان میں سے بیشتر کی کئی کئی سو سال کی عزت افزائی ہوجائے۔ ہنوز دلی دور است، والا معاملہ لگ رہا ہے۔سیاسی کشمکش اور اقتدار کی بند ر بانٹ کے سلسلے میں انہیں مہمان خانوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور جیسے ہی معاملات طے پا جاتے ہیں ، سب ختم ہو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اور یہ سلسلہ تسلسل سے اسی طرح جاری ہے۔ اب تو مفاہمت کا دور دورہ ہے ، پچھلے پانچ سالوں میں مفاہمت کی شاندار مثالیں قائم ہوئی ہیں اور باقی مثالیں آئندہ دور حکومت میں قائم ہو جائیں گی۔لیکن گونگلوؤں سے مٹی بھی تو جھاڑنی ہوتی ہے ۔اسی لئے آج کل سمن ، نوٹس، کارروائیوں اور خصوصی مہمان خانوں کی خبریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔وقت گزر جائے گا اور آخر کار ان پہاڑوں میں سے بھی وہی چوہے نکلیں گے جو پہلے پہاڑ کھودنے سے نکلا کرتے تھے۔
یوسف رضا گیلانی کے منہ سے تو ’ہے کسی میں اتنی ہمت‘ والے الفاظ جیسے ہی نکلے ، ذرائع ابلاغ کی بدولت ہم سب کے کانوں میں رس گھول گئے ،مجھے تو پورا یقین ہے کہ اسی طرح کے ارشادات پرویز مشرف بھی تواتر سے فرماتے ہوں گے لیکن وہ کوئی یوسف رضا گیلانی جیسی کوتاہ قامت تھوڑی ہیں کہ انکے منہ سے نکلے ہوئے سارے ارشادات اگلے لمحے تازہ خبروں کی صورت میں ہم تک پہنچا دئیے جائیں ۔بہت کچھ دیکھنا سوچنا پڑتا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ شخصیات بظاہرسنجیدہ نظر آنے والے مصنوعی بحرانوں سے با لآخرنکل آئیں گی اور اگر انکی زندگیوں اور تقدیروں نے وفا کی،یہ کسی نہ کسی شکل میں پھر ہماری رہنمائی اور قیادت فرما رہی ہوں گی۔ وہ ایسا وقت ہو گا جب موجودہ بحرانوں کی باز گشت بھی ہمیں سنائی نہیں دیا کرے گی اور ہم لوگ پھر پورے زور وشور کے ساتھ ان شخصیات سے اپنی خدمت کروا رہے ہوں گے۔
تازہ ترین