• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی ترقی کیلئے خواتین کے کردار کی اہمیت

دنیا بھر میں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں۔ پاکستان میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ملازمت اختیار کیے ہوئے ہے جبکہ کچھ ایسی بھی ہیں جو چھوٹے اور بڑے پیمانے پر اپنا کاروبار کرتے ہوئے ملکی معیشت میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ فوربس میگزین کی 30 under 30 سوشل انٹرپرینورز کی فہرست میں بھی پاکستانی خواتین انٹرپرینورز کا شمار ہوتا رہا ہے۔ یہ خواتین آئی ٹی، فیشن، تعلیم، آن لائن کاروبار اور دیگر میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کررہی ہیں۔

پاکستان کی تقریباً 52فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے بر سر روزگار خواتین مجمو عی تعداد کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ کاروبار کرنے والی خواتین کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر ہے جبکہ ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد کُل آبادی کا ڈیڑھ یا دو فیصد ہے۔ خواتین کے لیے تعلیمی اور تربیتی اداروں میں اضافے سے پیشہ ورانہ زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے اور وہ ملکی معاشی یا معاشرتی ترقی میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کررہی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملازمت پیشہ اور کاروباری خواتین کو مساوی حقوق و مواقع فراہم کر نے کے لیے حکومتی سرپر ستی کی جائے اورایسی خواتین جن میں تمام تر صلاحیتیں اور خصو صیات ہوں، ان کی مثبت اور تیز سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کیا جائے۔ پاکستانی خواتین کاروباری سر گر میوں میں دلچسپی لیتے ہوئے نہ صر ف اپنے اور اہلخانہ کی مالی ضرورتوں کو بآسانی پورا کر سکتی ہیں بلکہ بین الاقوامی مارکیٹوں میں تجارت کر کے ملک کے لیے کثیر زرمبادلہ بھی کما سکتی ہیں۔

جب بھی مسائل کے حل کی بات ہوتی ہے تو خواتین زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور لازمی امر ہے کہ اگر مسائل حل ہوجائیں تو ہماری زندگی کافی حد تک سہل ہو سکتی ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا تھا کہ اگر خواتین کو رہنمائی دی جائے تو وسائل کی تقسیم میں مساوات کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ’ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2019ء‘ میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر میں صنفی برابری کا خلا 68فیصد تک پُر ہو چکا ہے۔

تاہم ابھی بھی اس کو مکمل پُر ہونے میں 100سے زائد سال لگ سکتے ہیں جبکہ کمپنیوں میں صنفی مساوات کاخلا مکمل پُر ہونے میں مزید 200سال انتظار کرنا ہوگا۔ ایک اور رپو رٹ، جو لنکڈاِن کے اشتراک سے تیار کی گئی تھی، سے پتہ چلا کہ دنیا بھر میں صرف22فیصد خواتین مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس شعبے میں صنفی خلا بہت زیادہ نظر آتا ہے اور مستقبل میں بھی اس شرح میں اضافہ کا امکان موجود نہیں۔

بہت سی سائنسی تحقیقات یہ ظاہرکرتی ہیں کہ وہ لوگ جو مختلف طبقوں سے اور طبیعت کے مالک ہوتے ہیںوہ زیادہ تخلیقی ، محتاط اور محنت کش ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں عدم مساوات کی وجہ سے خواتین کے لیے معاشی مواقع کی فراہمی کےحوالے سے بھی حالات خراب ہیں، ساتھ ہی عورتوں اور مردوں کے درمیان معاوضوں کا فرق بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق عورتوں کے درمیان تنخواہوں کے فرق کی عالمی اوسط 20فیصد ہے۔ ایک اورتحقیق کے مطابق 60فیصد ممالک میں خواتین کو دستیاب بینکاری اور دیگر اقتصادی سہولتوں تک رسائی کے مواقع مردوں کے برابر ہیں جبکہ جائیداد کے مساوی حقوق صرف 42فیصد ملکوں میں دیے جاتے ہیں۔

یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے عہدوں پر مردوں کا غلبہ ہے، جس سے خواتین کے پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے امکانات کمزور پڑ جاتے ہیںاور ایسا صرف عالمی یا قومی سطح پرہی نہیں ہے بلکہ درسگاہوں اور کمیونٹیز کی سطح پر بھی ہوتاہے۔

مواقع کے لغوی معنی ہیں،’’وقت یا حالات کا ایک مجموعہ جس سے کچھ کرنا ممکن ہوجاتا ہےـ‘‘۔ لہٰذا اگر ہم اس بات کی جانچ کرنا چاہیں کہ آیا آج کی خواتین کو ملازمت اور کاروبار میں یکساں مواقع مل رہے ہیں تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت مردوں کے مقابلے میں ان کے لئے حالات سازگار ہیںیا نہیں؟ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو خواتین ہمیشہ ہی معاشرے میں پسماندہ رہی ہیں، تاہم اب حالات بدل رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار ہورہی ہے، جس کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں بھی دیکھے جارہے ہیں۔ صنفی عدم مساوات، مساوی تنخواہ اور ہراساں کرنے کے معاملات کو حل کرنے کے لیے اب کمپنیاں تیزی سے پختہ پالیسیاں تشکیل دے رہی ہیں۔ یہ پالیسیاں مزید خواتین کو افرادی قوت میں شامل ہونے اور مَردوں کی طرح مساوات کے پیمانے پر کارکردگی دکھانے میں مدد فراہم کریں گی۔

خواتین گذشتہ ادوار کے مقابلے میں اہم ذمہ داریاں نبھانے میں آج زیادہ نمایاں ہوسکتی ہیں، بعض ممالک اور شعبوں میں خواتین مَردوں کے برابر یا ان سے بھی بہتر تنخواہ حاصل کر رہی ہیں، لیکن اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ آج کی دنیا میں ہر عورت کو یکساں مواقع حاصل ہیں۔ لوگ اب بھی یہ مانتے ہیں کہ عورتیں مختلف طریقوں سے مَردوں کے برابر نہیں ہیں۔ 

جب خواتین کو مساوی تنخواہ کی طرح ایک خاص حق دیا جاتا ہے ، تو کچھ لوگوں کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ۔ ایسا منظر نامہ جہاں عورت کو کام کی جگہ یا معاشرے میں مساوی مواقع ملتے ہیں، ایک مرکزی دھارے کا تصور ہونا چاہیے۔ اس منظرنامے کویقینی بنانے کے لیے مرد اور خواتین سے ایک جیسا سلوک روا رکھا جائے، یہی وہ واحد راستہ ہے جس میں تمام خواتین کو برابری کی بنیاد پر مواقع کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

شیرل سینڈبرگ ، اوپرا ونفری ، جینیٹ یلن اور دیگر بہت سی نامور خواتین اپنی زندگی اور کیریئر میں طاقتور اور قابل احترام مقام پر پہنچ گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو مساوی حقوق اور تنخواہ دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنی استطاعت ، ذہانت اور ذمہ داری سے مَردوں کی طرح مساوی طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صنفی مساوات کی درجہ بندی میں امریکا بھی نیچے چلا گیا تھا یعنی2006ء میں 23ویں نمبر پر تھا تو2016ء میں 45ویں پوزیشن پر آگیاتھا۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ اب سائنسدانوں، ماہرین تعلیم ، انجینئرز، ریاضی دانوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی نئی نسل کے لیے راہیں ہموار ہو رہی ہیں، تاہم اسٹَیم ( یعنی سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجینئرنگ اور میتھ میٹکس) کے شعبوں میں اپنا کیریئر بنانے کی خواہش رکھنے والی خواتین کی تعداد ابھی بھی مَردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس فرق کو کم کرنے کیلئے بہت سے ماہرین اقتصادیات، ماہرین تعلیم اور عالمی رہنما کاوشیں کررہے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ لڑکیاں اسٹَیم ایجوکیشن سے دور کیوں ہوجاتی ہیں؟ امریکی ریاست انڈیانا میں واقع انڈیانا یونیورسٹی کے اسٹیم ایجوکیشن انوویشن اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SEIRI) کی بانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور کیمسٹری پروفیسر پرتھبا ورما کے مطابق آج بھی لڑکیوں سے یہ کہا جاتاہے کہ سائنس ان کے بس کی بات نہیں جبکہ کم آمدنی والے گھروں کی بچیوں کا سائنسی مضامین اختیار کرنا اچنبھے کی بات سمجھا جاتاہے۔ ہمیں اس طرز عمل کو ترک کرنا چاہیے۔ 

اوائل عمری سے ہی لڑکیوں کی سائنس، کامرس اور تخلیقی شعبوں میں حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے اور جب وہ اپنے کیریئر کے نمایاں مقام پر پہنچ رہی ہوں تو انہیں بااختیار بنانے اور بڑے خواب دیکھنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، خواتین خود ہی یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ وہ مساوات کے لائق ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے اور آنے والی نسلوں کے لیے حالات کو درست بنانے کیلئے یہ بالکل موزوں وقت ہے۔

یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جن شعبوں میں ٹیکنالوجی اپنا کردار ادا کرتی ہے، وہ ان شعبوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ زندگی کے ہرموڑ پر، ہر فیلڈ میں، چاہے وہ صنعتیں ہوں یا تعلیمی ادارے ،ٹیکنالوجی ہمارے درمیان کھڑی ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی نے کمیونیکیشن کی رفتار تیز کردی ہے اور گھریلو کام سے لے کر دفتری فرائض تک ہمیں ہر وقت کمپیوٹر یا گیجٹس کی ضرورت پڑ تی ہے، اس صورتحال میں بچیوں کی تعلیم میں بھی ٹیکنالوجی کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اگر خواتین پیچھے رہ جائیں اور اپنا کردار ادا نہ کرسکیں تو معاشرے کے لیے یہ بڑے نقصان کا باعث ہوگا۔

تازہ ترین