• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
یہ درست ہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم عین کھیل والے دن اپنا بوریا بستر اٹھا کر اپنے وطن بھاگ گئی، یہ بھی ٹھیک ہے کہ انگلینڈ کی ’’کڑیاں اور منڈے‘‘ بھی اب کورونا کے بہانے پاکستان نہیں جا رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ’’کرکٹ سیاست‘‘ کی وجہ سے پاکستانیوں کو دکھ پہنچا ہے جن کے لئے کرکٹ اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے، ان کی ’’دن کی نیندیں‘‘ خراب اور ’’راتوں کا چین‘‘ کھو گیا ہے اور یہ کہ اس سے پاکستان جیسے ایٹمی ملک کو یہ ضرور سوچنا پڑا ہے کہ جب اس ٹیم کو صدارتی سطح کی سیکورٹی دی گئی تھی اور اتنے ناز نخرے برداشت کئے تھے تو پھر ایسا کیا ہوا کہ میچز منسوخ کر دیئے گئے۔ اس سے یقیناً دنیا بھر میں یہ خبر ضرور بنی کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر نیوزی لینڈ کی ٹیم واپس چلی گئی مگر اس کے ساتھ ساتھ خبر یہ بھی بنی کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم نے خواہ مخواہ بزدلی کا مظاہرہ کیا اور یہ کہ مغربی ممالک کو کسی ملک کو نیچا دکھانے کے لئے محض کوئی بہانہ چاہئے۔ یہ ممالک ایک دوسرے کی سپورٹ میں ہمیشہ آگے آجاتے ہیں، پاکستانی شائقین نے ان ممالک سے شاید کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی تھیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے ٹوٹنے کا انہیں بہت دکھ ہوا ہے، اب اگر دیکھا جائے تو ایسا کیا ہوا ہوگا کہ مغربی ممالک اچانک پاکستان جاکر کرکٹ کھیلنے سے ’’خائف‘‘ ہوئے ہیں، تو اس سوال کی بہت سی تاویلیں دی جارہی ہیں، ایک یہ کہ جب انڈیا کی افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوب گئی، اس کے سفارتکاروں کو کابل سے دم دبا کر بھاگنا پڑے گا، اس کی جگ ہنسائی ہوئی، اس کا چہیتا اشرف غنی مال و اسباب سمیت بھاگ جائے گا، طالبان کے اقتدار کو پاکستان کی پالیسیوں کی کامیابی سمجھا جائے گا اور اس کو مغربی ممالک کے ہزاروں سفارتکاروں اور شہریوں کو افغانستان سے نکال کر پاکستان کے اندر پناہ دینے پر سراہا جائے گا تو کیا اس ساری صورتحال پر بھارت خاموش رہے گا، پاکستان کے وزیر داخلہ اور وزیراطلاعات نے اپنی پریس کانفرنس میں بھارت کے حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں ان میں کافی حد تک وزن نظر آتا ہے، اگر یہ ای میلز بھارت سے نہیں بھیجی گئیں تو بھی شک بھارت پر ہی جاتا ہے، اسے اس ساری ہزیمت کو کم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا تھا، سو کیا ہوگا، اگر ای میلز نہیں بھجوائیں تو اپنے مغربی اتحادیوں کے ذریعے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ پر دبائو ضرور ڈالا ہوگا، آخر کرکٹ کا آدھے سے زیادہ خرچہ بھارت ہی تو اٹھاتا ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت افغانستان میں جو صورتحال ہے وہ واضح نہیں ہے، طالبان کی حکومت بن تو گئی ہے مگر مستحکم نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کے سخت گیر مقامی کمانڈرز کی بڑی تعداد بغاوت پر آمادہ ہے ،چند روز قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں افغانستان جانے والے پاکستانی امدادی سامان کے ٹرکوں سے پاکستانی پرچم اتارے گئے، اگر افغانستان پر طالبان کی حکومت ہے تو پھر یہ لوگ کون تھے جو سرحد عبور کرتے ہیں، پاکستانی ٹرکوں پر آن دھمکے، افغانستان میں داعش اور القاعدہ کے منظم ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، چنانچہ مغربی ممالک ہو سکتا ہے کہ ان حالات میں پاکستان میں اپنے لوگوں کو بھیجنے سے اجتناب کریں، ہو سکتا ہے افغانستان میں طالبان مستحکم ہو جائیں اور پاکستان پر افغانستان کے اندرونی حالات کے زیادہ اثرات نہ پڑیں تاہم چونکہ پاکستان اور افغانستان پڑوسی ملک ہیں اور وہاں کے اثرات پاکستان پر بھی پڑنے ہیں، اس لئے مغربی ممالک شاید محتاط انداز اختیار کر رہے ہیں، ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب آپ امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے جے ایف۔17 جنگی طیارے ارجنٹائن کو فروخت کریں گے اور ان ؓبڑوں کے مقابلے میں آکر اپنی مارکیٹ بنائیں گے تو اس کے اثرات ہونے بھی لازم ہیں، چنانچہ ساری چیزوں کو مدنظر رکھ کر پاکستانیوں کو بہتر قوم کے طور پر سوچنا ہوگا، یہ بھی سوچنا ہوگا کہ کرکٹ کن ممالک میں کھیلی جاتی ہے، لے دے کر 14/12 ایسے ممالک ہیں جو انگریزوں کے غلام رہے ہیں یا کسی نہ کسی طرح ان کے زیراثر رہے ہیں یہی ممالک کرکٹ کھیلتے ہیں، امریکہ، چین، فرانس، جرمنی، روس جیسے ترقی یافتہ اور قابل ذکر ممالک سمیت 100 سے زیادہ ممالک میں تو شاید عام لوگوں نے کرکٹ کے بارے میں کچھ سنا ہی نہیں ہوگا، پاکستان کا قومی کھیل تو ہاکی ہے۔ 70، 80 اور 90 کی دہائیوں تک اس کھیل میں پاکستان کا ڈنکا بجتا تھا اب کیا ہوا، اس کھیل پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی، دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جو فٹبال نہ کھیلتا ہو، کیا پاکستانی فٹبال نہیں کھیل سکتے، کیا اس میں عزت کے ساتھ ساتھ مال و دولت کی فروانی نہیں ہے، ہمیں مغربی کرکٹ ٹیموں کی بے رخی پر ہنگامہ برپا کرنے کی بجائے ان کھیلوں پر توجہ دینی چاہئے جو ساری دنیا میں مقبول ہیں۔
تازہ ترین