• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے علاوہ بھی پورے برصغیر میں گوروں نے بڑے بڑے خوبصورت ریلوے اسٹیشن تعمیر کرائے ہیں۔ لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے پہلی ٹرین امرتسر گئی تھی، پہلا اسٹیم انجن پٹری پر ڈالا گیا تھا، برصغیر کی سب سے بڑی ریلوے ورکشاپ لاہور میں ہی تعمیر کی گئی تھی۔ خیر لاہور کے پاس تو کئی اور بھی بے شمار اعزازات ہیں۔ لاہور میں اولیا کرام کے بہت مزارہیں، رائل پوسٹ کا ڈاک کا آخری لال رنگ کا لیٹر بکس دھنی رام روڈ اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی دیوار کے ساتھ بے یارومددگار پڑا ہوا تھا جسے چوروں نے کئی دفعہ اکھاڑنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے ، ہم نے اس کی تصویر بنا کر خبر دی جس پر محکمہ ڈاک والے اسے اپنے میوزیم میں لےگئے۔ ہم نے لاہور کے آخری سنگِ میل کی بھی تصویر بنائی اور خبر دی تھی جو میکلوڈروڈ پر نصب تھا اورنج ٹرین کی نذر ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے ایک بدنام زمانہ سینما گھر ہوتا تھا۔ اسی طرح کبھی لاہور کینٹ (میاں میر چھائونی) میں بھی ایک تاریخی سنگِ میل نصب تھا جس پر کشمیر اور دہلی تک کا فاصلہ میلوں میں درج تھے، وہ بھی غائب کر دیا گیا۔ اسی طرح راوی کے پل کے پاس ایک بڑا تاریخی سنگِ میل اونچا سا نصب تھا، اس کو بھی ظالموں نے غائب کر دیا۔ وہ کالے اور سفید رنگ کی پٹیوں والا تھا۔ لاہور میں بھی کئی میل ا سٹون ہوا کرتے تھے جن پر مختلف جگہوں کے نام اور فاصلے میلوں میں درج ہوتے تھے۔ خیر چھوڑیں کس کس بات کا ذکر کریں اور رونا روئیں۔ زندگی نے ہمیں پورےقدیم لاہور کی اصل شکل و صورت ضرور دکھا دی جس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے شکر گزار ہیں۔ ہم نے لاہور اور لاہور کے باہر شہروں اور دیہاتی علاقوں میں جتنے بھی ریلوے اسٹیشن دیکھے ہیں انگریزوں نے ہر اسٹیشن پر مسافروں کے ویٹنگ روم، اسٹیشن ماسٹروں کے کمروں حتیٰ کہ کیبن روم تک روایتی طرز کے آتشدان بنائے تھے جو آج بھی موجود ہیں بلکہ مغل پورہ اور والٹن ریلوے اسٹیشن کے ایس ایم کے کمروں کے آتش دانوں میں کسی زمانے میں جلائی گئی لکڑیوں کا دھواں بھی آج تک لگا ہوا ہے مگر اب یہ آتشدان استعمال نہیں کئے جاتےکیونکہ ہم نے گوروں کی بنائی گئی ہر اچھی عمارت اور مشینری کو تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔

عزیز قارئین! شاید ہی کسی نے گوروں کے تعمیر کردہ ریلوے اسٹیشنوں پر ہاتھ اور ڈوری سے چلانے والا لکڑی کے بہت مضبوط ڈنڈے پر موٹے سے کپڑے والا پنکھا دیکھا ہو جس کو ایس ایم کے کمرے اور درجہ اول کے مسافر خانوں (ویٹنگ روم) کے باہر ایک چپراسی کھینچتا رہتا تھا۔ ہم نے یہ پنکھے 1966ء میں کھیوڑہ اور چوا سیدن شاہ میں چیف انسپکٹر آف مائنز مغربی پاکستان کے ریسٹ ہائوسز میںبھی دیکھے ہیں۔ وہاں اس زمانے میں بجلی نہیں تھی،رات کو ان ریسٹ ہائوسز میں خوبصورت لیمپ جلائے جاتے تھے۔ ہم نے ان ریسٹ ہائوسز میں دو راتیں بسر بھی کی تھیں۔ کبھی کلر کہار اور کٹاس راج کے علاقے بڑے خوبصورت تھے۔ سیوک جھیل بھی بڑی دلکش ہے۔ کھیوڑہ کی نمک کان تک ریلوے لائن بچھی ہوئی ہے اور وہاں انجن کا رخ تبدیل کرنے کے لئے اسے ایک بہت بڑے دائرے پر لاتے تھے جس پر لائن ہوتی تھی ۔ اور پھر چار افراد زور لگا کر اس دائرے کے پلیٹ فارم پر کھڑے انجن کو گھما کر اس کا رخ تبدیل کرتے تھے۔ آج بھی شاید کہیں نہ کہیں ایسا ہوتا ہو گا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن سے کھیوڑہ جانے والی ٹرین کو ملک وال ریلوے اسٹیشن سے کاٹ کر کھیوڑہ بھیجا جاتا تھا۔ بہر حال بادامی باغ ریلوے اسٹیشن جہاں کبھی باداموں کے درخت ہوتے تھے اب درخت نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ تجاوزات میں گھرے ہوئے اس ریلوے اسٹیشن پر ہم بڑی تگ و دو کے بعد پہنچے۔ اسٹیشن کے اردگرد کی تمام زمین پر لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ کچھ مہربانی بھٹو حکومت نے کی اور کچھ جونیجو کی حکومت نے۔ جب ان دونوں سابق حکومتوں نے اعلان کیا تھا کہ کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دیئے جانے ہیں تو بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کی کئی ایکڑ زمین پر قبضہ کر لیا گیا اور لوگوں نے پہلے کچے مکان پھر پکے مکان اور پھر دکانیں بنا لیں۔ کچھ لوگوں نے بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کے کیبن روم پر بھی قبضہ کر لیا جہاں کاٹنا تبدیل کرنے کا سارا نظام لگا ہوا تھا ۔ حکام خاموشی سے یہ سارا تماشا دیکھتے رہے۔ یہ تاریخی ریلوے اسٹیشن 1888-89میں گوروں نے تعمیر کیا تھا، اس کا کیبن روم 1905میں تعمیر ہوا تھا۔ اس ریلوے اسٹیشن سے 1970تک اسٹیم انجن چلا کرتے تھے، ٹرینیں آتی جاتی تھیں، آج بھی اس ریلوے اسٹیشن پر بھارت کی ٹاٹا کمپنی کی تیار کردہ کچھ لائنیں بچھی ہوئی ہیںجبکہ اب چین کی تیار کردہ لائنیں ڈالی جا رہی ہیں۔ گوروں کی تیار کردہ ریلوے لائنیں جو ولایت سے آتی تھیں اور یہاں گوروں کی نگرانی میں تیار ہوئی تھیں وہ سو برس سے بھی زیادہ کام آئیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ نئی لائنیں کب تک کا م آتی ہیں۔ آج بھی اس اسٹیشن پر پٹریوں کے نیچے لکڑی کے بڑے بڑے مضبوط سلیپر موجود ہیں۔ اگر اس عمارت کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو یہ عمارت تباہ ہو جائے گی، ریلوے کی ذرا سی توجہ سے یہ عمارت مزید سو برس کام آ سکتی ہے۔

نوٹ:گزشتہ ہفتے کے کالم میں سہواً جسٹس محمد رستم کیانی کا نام جسٹس محمد اسلم کیانی شائع ہو گیا تھا۔

(جاری ہے)

تازہ ترین