• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے تمام بڑے شہروں کے مرکزی، تجارتی و رہائشی علاقوں کو ڈاؤن ٹاؤن کہا جاتا ہے جہاں بلند و بالا عمارتیں نظر آتی ہیں جبکہ مضافات اور تمام چھوٹے بڑے قصبوں میں تقریباً ایک جیسے مکان اور بنگلے نظر آتے ہیں، جو دو تین بیڈ روم اور ایک دو باتھ رومز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں رہنے والے معمولی ملازمت کرتے ہوں یا اعلیٰ ایگزیکٹو جاب پر ہوں، اُن کا معیارِ زندگی یکساں ہوگا۔ چند امرا کو چھوڑ کر تمام امریکی اپنے گھروں کا کام خود کرتے ہیں، گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہیں، ان کے بچے قریبی سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کو حکومت خصوصی وظائف اور بلاسود قرضے فراہم کرتی ہے۔ علاج معالجے کے لئے سرکاری اسپتال ہیں جہاں ہر شہری کو بہترین سہولیات دی جاتی ہیں جبکہ عمر رسیدہ افراد کو پنشن اور سوشل سیکورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وہاں تمام لوگ قناعت اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے ہیں، ان کی خواہشات اچھے کھانے، سیر و تفریح اور کھیلوں کے میدانوں تک محدود ہیں اور ان کو کوئی ہوس نہیں کہ بڑے گھر اور بڑی گاڑیاں خریدیں یا نمود و نمائش کا اہتمام کریں۔ سادہ زندگی بسر کرنے والے اور بلاتفریق پوری دنیا میں ضرورت مندوں کی مدد کرنے والے دنیا کے امیر ترین ملک امریکہ کے باسی اگر چاہیں تو اپنی ضروریات اور خواہشات کو بڑھا کر دوسروں پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے وسائل خود پر لگا سکتے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔ اچھے برے لوگ ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں یقیناً امریکہ میں بھی ہوں گے مگر اکثریت امن پسند اور منصفانہ کردار کی حامل ہے جو بیرون ملک سے آنے والے لاکھوں لوگوں کو نہ صرف اپنے معاشرے کا حصہ بناتی ہے بلکہ انہیں بلاتفریق آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔

اب ہم اپنے ملک میں رہنے والوں کا طرزِ زندگی دیکھیں تو اکثریت جھوٹ، فریب، خوشامد، کرپشن، اقربا پروری اور ناانصافی کا سہارا لے کر ترقی کے زینے طے کررہی ہے۔ یہاں ہر شعبہ زندگی میں طاقتور مافیا موجود ہے جو کوئی بھی حکومت آئے، چہرے بدل کر نئے روپ میں اپنے ہی بےبس اور مجبور لوگوں کو روند کر اپنی جائز اور ناجائز دولت میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور بااصول و دیانت دار لوگوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ناجائز کمائی سے بنے محل نما گھر اور بڑی گاڑیاں تمام بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں ہر طرف نظر آتی ہیں جو نو دولتیے تیزرفتاری سے دوڑا رہے ہوتے ہیں اور کوئی ان کو روکنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ موجودہ حکومت کو عوام کی اکثریت نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا جبکہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی اس گمان میں تھے کہ شاید آنے والے فرسودہ اور کرپٹ نظام کو تبدیل کرکے کرپشن سے پاک اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کر سکیں مگر اب ان کی امیدیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ سادگی کا نعرہ لگانے والی حکومت کے وزرا چمچماتی گاڑیوں میں حفاظتی گاڑیوں کے جلو میں دندناتے پھر رہے ہیں اور عوام مہنگائی کی چکی میں پسے سڑکوں پر خوار ہورہےہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان ٹیکسیاں اور فوڈ ڈیلیوری کے لئے موٹر سائیکل چلا رہے ہیں۔ ملازمتیں ناپید ہو چکی ہیں، کاروبار اور کارخانے بند ہورہے ہیں، دوائیاں اور علاج مہنگا ہونے سے لاچار مریض بلبلا اٹھے ہیں، خیراتی لنگرخانوں کی قطاروں میں اضافہ ہورہا ہے، کرپشن کے ریٹ کئی گنا بڑھ گئے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی جبکہ اپوزیشن عوام کی حالتِ زار دیکھ کر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے کہ موجودہ حکومت کو موردالزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ملک میں گورننس کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا، حکومت میں شامل افراد بڑی ڈیلز اور مال بنانے میں مصروف ہوں گے، عوام بےبسی اور بےچینی کا شکار ہوں گے تو ملکی سلامتی اور خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو حقیقت پسندانہ بنائیں، کرپٹ اور نااہل لوگوں کو فارغ کرکے اچھی شہرت کے حامل لوگوں کو آگے لائیں اور تمام بیرونی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کریں کہ کھوکھلے نعروں سے نہ لوگوں کے پیٹ بھرتے ہیں اور نہ ہی ملک ترقی کرتے ہیں۔

(مضمون نگار سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین