دوپہر کے تین بج رہے ہیں۔ اسکول سے واپس آئے آدھا گھنٹہ گزرچُکا ہے اور اب دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر قاری صاحب کا انتظار ہورہا ہے۔ سبق یاد ہونے کے با وجود دل ہی دل میں دُعائیں مانگی جا رہی ہیں کہ ’’اللہ میاں! پلیز آج قاری صاحب چُھٹی کرلیں، اُن کی موٹر سائیکل کا ٹائر پنکچر ہوجائے یا وہ سیڑھیوں سے گِر جائیں…‘‘ لیکن تھوڑی ہی دیر میں قاری صاحب کی موٹر سائیکل رُکنے کی آواز آتی ہےاورساتھ دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔ سپارہ پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے زبردستی سونے لٹا دیا جاتا ہےاور پھر ٹیوشن کا وقت ہوجاتا ہے۔
اب شام کے پانچ بج رہے ہیں۔ بستہ اُٹھائے، محلّے کے دیگر بچّوں کی ہم راہی میں ’’ٹیوشن والی باجی‘‘ کے گھر جایا جارہا ہے۔واپسی پردادی سے ملے ’’چیز کے پیسوں‘‘ سے چاکلیٹ، جیلی اور چپس لیتے ہوئےگھر پہنچے۔ گھر پہنچتے ہی اپنی چیز بہن، بھائیوں سے چُھپا کر رکھی اور کھیلنے کے لیے فوراًباہر چلےگئے، جہاں محلّے کے دیگر بچّے پہلے ہی سے جمع ہیں اور یہ فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کون سا کھیل کھیلا جائے کہ وقت کم ہے اور مغرب سے پہلے سب کو ہر صُورت گھر واپس جانا ہےکہ کہیں مغرب کے وقت ابّو نے باہر دیکھ لیا تو خوب ڈانٹ پڑے گی۔ بالآخر، سب بچّے ’’پکڑم پکڑائی ‘‘ کھیلنے پر متّفق ہوجاتے ہیں اور جو وقت بچتا ہے اُس میں تھوڑی دیر کے لیے ’’کنگز، کنگز‘‘ بھی کھیل لیتے ہیں۔ اسی اثنامغرب کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں اور سب بچّے بھاگ کر اپنے اپنے گھروں کو لَوٹ جاتے ہیں…‘‘
یہ ذکر ہے، اُس نسل کے بچپن کا، جس نے حقیقی معنوں میں بچپن جیا ہے۔ یہ جھلک ہے، ان لوگوں کے بچپن کی ، جو نانیوں، دادیوں سے کہانیاں سُن کر جوان ہوئے اور یہ تصویر ہے ان کے ماضی کی ،جن کا بچپن ڈھیر ساری خوشیوں، سنہری یادوں، نہ ختم ہونے والے قہقہوں، ہنسی مذاق، اٹکھیلیوں، شرارتوں اور کھیل کود سے عبارت ہے۔ آہ… وہ بھی کیا دن تھے جب شام بھی ہوا کرتی تھی کہ اب تو صبح کے بعد سیدھی رات ہوجاتی ہے۔ بچپن کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ جیسے جیسے انسان جوانی یاسنِ شعور کی طرف بڑھتا جاتا ہے، اُسے اپنا ماضی، اپنا بچپن ، بے فکر زمانہ شدّت سے یاد آنے لگتا ہے۔
یوں تو بچپن بے فکری ہی کا دَورہوتا ہے، لیکن آج کی نسل کا بچپن ہم سے اور ہم سے پہلی نسلوں کے بچپن سے یک سر مختلف ہےکہ آج کے دَور میں بچّے تو نظر آتے ہیں، ’’بچپن‘‘ نہیں۔اوراس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دَور میں اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، ڈیجیٹل گیمز، آن لائن گیمز وغیرہ کا عفریت نہیں تھا۔ ہم موبائل فونز ہاتھوں میں لیے یا آن لائن کارٹونز دیکھتے ہوئے نہیں، حکایت پر مبنی، سبق آموز کہانیاں سُنتے سُنتے نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔
وہ انور مسعود نے بھی بچپن کے حوالے سےکیا خُوب کہا کہ ؎ کیا بچّے سُلجھے ہوتے ہیں …جب گیند سے اُلجھے ہوتے ہیں… وہ اس لیے مجھ کو بھاتے ہیں… دن بیتے یاد دِلاتے ہیں… وہ کتنے حسین بسیرے تھے… جب دُور غموں سے ڈیرے تھے… جو کھیل میں حائل ہوتا تھا… نفرین کے قابل ہوتا تھا… ہر اِک سے اُلجھ کر رہ جانا… رُک رُک کے بہت کچھ کہہ جانا …ہنس دینا باتوں ،باتوں پر… برسات کی کالی راتوں پر… بادل کی سبک رفتاری پر… بلبل کی آہ و زاری پر …اور شمع کی لو کی گرمی پر… پروانوں کی ہٹ دھرمی پر… دنیا کے دھندے کیا جانیں …آزاد یہ پھندے کیا جانیں …معصوم فضا میں رہتے تھے …ہم تو یہ سمجھ ہی بیٹھے تھے… خوشیوں کا الم انجام نہیں …دنیا میں خزاں کا نام نہیں… ماحول نے کھایا پھر پلٹا …ناگاہ تغیّر آ جھپٹا …اور اس کی کرم فرمائی سے… حالات کی اِک انگڑائی سے… آپہنچے ایسے بیڑوں میں …جو لے گئے ہمیں تھپیڑوں میں …بچپن کے سہانے سائے تھے …سائے میں ذرا سستائے تھے …وہ دَور مقدّس بیت گیا… یہ وقت ہی بازی جیت گیا …اب ویسے مِرے حالات نہیں… وہ چیز نہیں، وہ بات نہیں …جینے کا سفر اب دوبھر ہے … ہر گام پہ سو ،سو ٹھوکر ہے… وہ دل جو روحِ قرینہ تھا… آشاؤں کا ایک خزینہ تھا… اس دل میں نہاں اب نالے ہیں… تاروں سے زیادہ چھالے ہیں …جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے… رونے کو چُھپانا ہوتا ہے …کوئی غنچہ دل میں کھلتا ہے… تھوڑا سا سکوں جب ملتا ہے… غم تیز قدم پھر بھرتا ہے… خوشیوں کا تعاقب کرتا ہے… مَیں سوچتا رہتا ہوں یوں ہی… آخر یہ تفاوت کیا معنی… یہ سوچ عجب تڑپاتی ہے… آنکھوں میں نمی بھر جاتی ہے… پھر مجھ سے دل یہ کہتا ہے… ماضی کو تُو روتا رہتا ہے… کچھ آہیں دَبی سی رہنے دے … کچھ آنسو باقی رہنے دے …یہ حال بھی ماضی ہونا ہے …اس پر بھی تجھے کچھ رونا ہے۔
کبھی کبھار کس قدر دِل چاہتا ہے ناں کہ اے کاش !ہمارے پاس کوئی ٹائم مشین ہوتی، جس کے ذریعے محض چند لمحوں ہی کے لیے سہی، مگر ہم ماضی میں لَوٹ سکتے، تو چلیں، آج اس مضمون کے ذریعے پھر سے بچپن کےاُن حسین، سنہرے ایّام میں لَوٹ چلتے ہیں، جہاں زندگی مُسکراتی،بے فکر نیند آتی تھی، جہاں زمانے کا خوف تھا، نہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کا ڈر۔اور… بچپن میں لَوٹنے کا ، اُن دِنوں کی یادیں تازہ کرنے کا کھیلوں سے بہتر ذریعہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ تو ذیل میں ایسے ہی کچھ کھیلوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جنہیں کھیلتے کھیلتے کب ہمارا بچپن پَر لگائے اُڑ گیا، کچھ پتا ہی نہ چلا۔
آنکھ مچولی
اس کا شمار اُن کھیلوں میں ہوتا ہے، جو ہماری اور ہم سے پہلے آنے والی ہر نسل میں یک ساں مقبول رہا ۔آنکھ مچولی نہ صرف بچّے بلکہ بڑی لڑکیاں بھی کھیلتی تھیں، جب گرمیوں یا سرما کی چھٹیوں میں سارے کزنز نانی، دادی کے گھر اکٹھے ہوتے، توعموماً یہ کھیل گھر کے کسی چھوٹے کمرے میں سب مل کر کھیلتے ۔ جسے دام (باری)دینی ہوتی ، اس کی آنکھوں پر پٹّی باندھ دی جاتی، اس مقصد کے لیےعموماً امّی، خالہ یا پھپھوکا دوپٹا استعمال ہوتا ۔پٹّی اس قدر مضبوطی سے باندھی جاتی کہ دام دینے والےکا(جسے عرفِ عام میں چور کہتے ہیں) سر ہی چکرا جاتا۔
یہی نہیں، تسلّی کے لیے چورکے سامنے انگلیوں کا اشارہ کرکے پوچھتے کہ ’’یہ کتنی ہیں؟‘‘ جس کا مقصد یہ جاننا ہوتا کہ کہیںاُسے کچھ نظر تو نہیں آرہا۔ وہ بچّے جو چالاکی سے بندھی پٹّی میں سے دیکھ رہے ہوتے تھے، جان بوجھ کر انگلیوں کی تعداد غلط بتاتے کہ ان کی چوری پکڑی نہ جائے۔ کھیل شروع ہوتا تو بچّوں کا ٹولا چور کو ہاتھ لگا لگا کر تنگ کرتا اور جوں ہی بھاگتےہوئے چور کے ہاتھ کوئی اور لگ جاتا، بس باری اُس کے سر آجاتی اور یوں یہ کھیل جاری رہتا۔
اونچ نیچ
یہ کھیل عموماً گھرکے صحن، کمروں کے اندر،گلی محلّوں، اسکولز یا کسی ایسی جگہ کھیلا جاتا ، جہاں اوپر چڑھنے، کھڑے ہونے اور بھاگنے کی جگہ ہوتی۔ اس کھیل میں دام دینے کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوتا کہ تمام بچّے ایک گول دائرے میں کھڑے ہوجاتے، ان میںسےایک بچّہ باآوازِ بلند’’اونچ نیچ کا پہاڑ…سچّےموتیوں کاہار…مالی دیکھ رہا ہے…پہلےکون پُگتا ہے۔‘‘کہتااور جس پر یہ الفاظ ختم ہوتے ،اُسے باری دینا پڑتی۔
کھیل شروع ہونے سے قبل ہی ’’اونچ‘‘ کا فیصلہ ہوجاتاکہ صرف ان مقررہ جگہوں ہی پر چڑھنا ہے۔ کھیل کے دوران تمام بچّے اپنی جگہیں بدلنے کی کوشش کرتے اور چور ’’نیچ‘‘ یعنی زمین پر چوکنّا کھڑا رہتا، جیسے ہی کوئی جگہ بدلتا ،چور اسے پکڑنے بھاگتا، اگر ہاتھ لگا لیتا، تو اس کی باری ختم ہوجاتی اور پھر پکڑے جانے والا باری دیتا۔
چُھپن چُھپائی
یہ کھیل نہ صرف ہمارے معاشرے ، بلکہ مغرب میں بھی یک ساں مقبول ہے۔ ’’چُھپن چُھپائی‘‘ یا ’’Hide and Seek‘‘دُنیا بھر کے بچّوں کا پسندیدہ کھیل سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے دَور میں جب یہ کھیل ، کھیلا جاتا تو اس میں ’’چور ‘‘کا فیصلہ پُگم سے ہوتا ، جو بچ جاتا ،وہ دام دیتا۔ چور کو ایک کونے میں جا کر دس یا مقرّرہ تعداد تک گنتی گننی ہوتی ، اس دوران کھیل میں شامل بچّےکونے کُھدروں ،گاڑیوں کے نیچے، درختوں کے پیچھے، کیاریوں کے اندر اور نہ جانے کہاں کہاں جاچُھپتے۔
اس کھیل میں بنیادی طور پر ’’ایمپریس اور بھنڈا‘‘ کی اصطلاحات استعمال ہوتیں۔ دام دینے والا گِنتی مکمل کرکے زور سے آواز لگاتا’’ مَیں آرہا ہوں…!!‘‘ اوریہ نعرہ لگا کر ساتھیوںکی تلاش شروع کردیتا، جو سب سے پہلے پکڑا جاتا ، چور اسے دیکھتے ہی ’’ایمپریس‘‘ کہتا اور پھر اُس کی باری شروع ہوجاتی ،جب کہ چُھپنے والے ساتھی ،چور کو ہاتھ لگا کر ’’بھنڈا‘‘ کہتے ۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا کہ بچّوں کی ٹولی کی ٹولی بھنڈا کہتے ہوئے چور پر ایک ساتھ دھاوا بول دیتی۔
پکڑم پکڑائی
ہر دَور کے بچّوں کا پسندیدہ اورآسان ترین کھیل رہا ہے۔ اس میں دام دینے والے کا فیصلہ یا تو پُگم یا ’’اِن پِن، سیفٹی پِن…اِن پِن آؤٹ…کھیلنا ہے تو کھیلو، ورنہ گیٹ آؤٹ‘‘کہہ کر ہوتا۔ کھیل شروع ہونے سے قبل چور یا باری دینے والا ایک جگہ کھڑا ہوکر ایک سے دس تک گنتی گنتا ، تاکہ سارے بچّے اس کی پہنچ سے دُور ہو جائیں ، جب گنتی ختم ہوتی تو چورباقی بچّوں کو پکڑنے بھاگتا، جو پہلے ہاتھ آجاتا، اگلی باری اُسے دینا پڑتی۔
برف پانی
اس کا شمار نوّے کی دَہائی کے بچّوں کے پسندیدہ ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔ برف پانی میں بھی پُگم کے ذریعے دام دینے والے دو بچّے منتخب ہوتے، جن میں سے ایک کا کام ’’پانی ‘‘(کھیل میں شامل بچّوں )کو برف کرنا اور دوسرے کا برف کو ڈیپ فریزر میں بند رکھنا ہوتا، یعنی دوسرا بچّہ باقی بچّوں کو بھاگنے سے روکے رکھتا تھا۔ کھیل کے آغاز میں دام دینے والے دونوں بچّے ایک ساتھ سب کو پکڑنے بھاگتے، پھر جیسے ہی کسی کو ’’ برف‘‘کرتے، دوسرا ساتھی اسے اپنے ساتھ لے جا کر کسی مخصوص جگہ پر کھڑا کردیتا ۔
اس دوران ’’آزاد‘‘ بچّوں کی کوشش ہوتی کہ برف ہوئےساتھیوں کو کسی طرح ہاتھ لگا کر ’’پانی‘‘ کردیں اور آزاد کروالیں۔ جب یہ کھیل، کھیلا جا رہا ہوتا تو پوری گلی ’’برف، پانی، چِیٹنگ چِیٹنگ‘‘ کی آوازوں سے گونج رہی ہوتی ۔
ٹِپ ٹَاپ
یہ کھیل کچھ حد تک برف پانی ہی کی طرز کا ہوتاکہ اس میں بھی دو چور اور باقی بھاگنے والے ہوتے تھے۔ مگر دونوں کھیلوں میں فرق یہ ہے کہ پکڑے جانے والے کو کسی جگہ بند نہیں کیا جاتا، بلکہ وہ جہاں ہو، وہیں کھڑا رہنا پڑتا ۔ اس کھیل میں جب چور کسی کو پکڑتاتو اسے ہاتھ لگا کر ’’ٹاپ‘‘ کہتا ، جب کہ دیگر کھلاڑی ’’ٹاپ‘‘ ہوئے دوست کو بچانے کے لیے چور کی نظروں سے بچ بچا کر اسے ہاتھ لگا کر’’ٹِپ‘‘ کہہ دیتے اور یوں وہ آزاد ہوکردوبارہ بھاگنے لگتا۔ سب کے پکڑے جانے کے بعد اس کھیل میں دوبارہ دام وہ دیتا، جو سب سے پہلے پکڑا گیا تھا۔
کھو،کھو
اس کھیل میں کم از کم 10 بچّوں کی موجودگی لازمی ہوتی ۔ پھر دو ٹیمز بنتیں، چار بچّے مناسب فاصلے سے ایک سیدھی قطار میں ایسے کھڑے ہوتے کہ ہر دوسرے بچّے کا چہرہ مخالف سمت ہوتااور پانچواں کھلاڑی باہر رہتا۔ دونوں ٹیمز کے کپتان تالی مار کر ’’اسٹارٹ‘‘ کہتے اور پانچواں کھلاڑی، اس کی ٹیم بھاگنا شروع کردیتی۔
واضح رہے، پکڑنے والی ٹیم بیچ کی لکیر نہیں پھلانگ سکتی تھی، یہ سہولت صرف بھاگنے والوں کو میسّر ہوتی۔ چناں چہ پکڑنے والا دائرے کی سیدھ میں کھڑے اپنے باقی ساتھیوں کی پُشت پر ’’کھو‘‘کہتے ہوئے اس کی جگہ کھڑا ہوجاتا اور کھو ہونے والا کھلاڑی، دوسری ٹیم کے ممبران کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔ کھیل اُس وقت تک جاری رہتا، جب تک مخالف ٹیم کے تمام کھلاڑی آؤٹ نہ ہوجاتے۔ بعد ازاں، دوسری ٹیم باری دیتی۔
پٹّھو گرم
ویسے تو یہ کھیل تمام بچّوں میں انتہائی مقبول تھا، لیکن لڑکے خاص طور پر بہت شوق سے کھیلتے تھے۔ ویسے آج بھی اس کا شمار صوبۂ خیبر پختون خوا کے بچّوں کے پسندیدہ ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔چھے، سات کھلاڑیوں کی دو ٹیمز پر مشتمل اس کھیل میں پانچ یا زائد پتھروں کا ایک مینارہ بنایا جاتا ، جسے ٹینس بال کی مدد سےگرانا ہوتا۔ ایک نشانے باز کو تین باریاں میسّر آتی تھیں۔
ایک ٹیم کوشش کرتی کہ پتھر دوبارہ ترتیب دے، تو دوسری ٹیم اُسے مسلسل توڑنے میں لگی رہتی ۔اس دوران مینارہ یا ٹاورگرانے والی ٹیم ، دوسری ٹیم کے کھلاڑیوں کو پتّھر ترتیب دینے سے روکنے کے لیے بال مارتی ، جس کھلاڑی کو بال لگ جاتا، وہ آؤٹ ہوجاتا ۔ البتہ، اگراس دوران دوسری ٹیم ،پتّھروں کا مینار دوبارہ ترتیب دینے میں کام یاب ہوجاتی، تو وہ فاتح قرار پاتی ۔
یسّو، پنجو
اس کھیل میں پانچ افراد کا ہونا ضروری ہے، جنہیں ’’یسّو، پنجو، ہار، کبوتر اور ڈولی ‘‘کے نام دئیے جاتےہیں۔ اس کھیل میں سب ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ کر اپنے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو کھول کر رکھتے ہیں۔ اور پھراِن ناموں کو اُن کی انگلیوں پر گنا جاتا ہے۔ اِس گنتی میں جس کسی کا نام آخر میں آتا ہے،وہ ایک طرف ہوتا جاتا ہے۔
حتیٰ کہ آخر میں بچ جانے والے غریب کو سب کی مار کا سامنا یوں کرنا پڑتا ہےکہ اپنے ہاتھ جوڑ کر سب کے سامنے باری باری کرنے پڑتے ہیں اورپھر سب ہی اُسے بے دردی سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنے آپ کو بچانے میں کام یاب ہو جائے، تو پھر دوسرے کی باری آجاتی ہے اور اس طرح یہ کھیل چلتا رہتا ہے۔