• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جتنے پکوڑے رمضان المبارک میں ہمار ے پیارے ملک میں کھائے جاتے ہیں ،اتنے پکوڑے شاید ہی پورے ہند سندھ میں کوئی اور مخلوق کھاتی ہو۔ میں نے کبھی کوئی سروے تو نہیں کیا البتہ گیلپ پاکستان کو ضرور چاہئے کہ سروے کر کے بتائے کہ ہم رمضان میں اپنے جی ڈی پی کا کل کتنے فیصد پکوڑوں کی شکل میں کھا جاتے ہیں؟نیز یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے ہاں پکوڑے کھانے کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کتنی زیادہ ہے تاکہ ہم سینہ تان کے مغرب والوں کو طعنہ دے سکیں کہ دیکھو اے کم عقل گورو! ہم اس شعبے میں بھی تم سے آگے ہیں۔ آج سے بارہ سو برس قبل بغداد کا ایک فلسفی جب کچن میں جھاڑو پھیررہا تھا، تب اسکے دماغ میں پکوڑے بنانے کی ترکیب آئی جو اس نے اپنی بیوی سے شیئر کی ،جواب میں اس نیک صفت بی بی نے یہ تاریخی فقرہ کہا کہ ”مرن جوگیا، پکوڑے بنا کے کھوائیں گا تے فیر پتہ لگے گا ۔“ واللہ اعلم بالصواب۔
پکوڑوں کی فیوض و برکات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے کو ہم نے پکوڑوں اور پر تکلف افطاریوں سے عبارت کر رکھا ہے۔جونہی افطار کا وقت قریب آتا ہے پکوڑوں، سموسوں اور دہی بھلوں (بڑہوں)کی ریڑھیوں پر یوں رش پڑتا ہے جیسے ان چیزوں کے بغیر افطاری ممکن ہی نہیں اور ڈسپلن کا عالم تو ایسے موقعوں پر قابل رشک ہوتا ہے ،کسی کو قطار بنانے کی تمیز نہ اخلاق دکھانے کا جذبہ۔پکوڑوں کا لفافہ ہاتھ میں پکڑ کر اندھا دھند طریقے سے گھر جانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کسی رکشے کو ٹکر مار کر بازو فریکچر کروا بیٹھتے ہیں۔افطاری کا غلغلہ صبح سے یوں مچنا شروع ہوتا ہے کہ لگتا ہے روزہ رکھ کر گویا ہم نے (نعوذ با للہ) خدا پر احسان کیا ہو۔ ایک دھیلے کا کام ہم رمضان میں نہیں کرتے ،وجہ پوچھو تو جواب آتا ہے کہ روزہ لگ رہا ہے۔دفاتر کے اوقات تبدیل کر دئیے جاتے ہیں ،سرکاری دفتر میں اگر کوئی بھولا بھٹکا سائل آجائے تو اس کیلئے ایک ریڈی میڈ جواب تیار ہوتا ہے ”روزوں کے بعد آنا۔“ آخر ہم رمضان میں باقی مسلمان اقوام کی طرح نارمل رہ کر کام کیوں نہیں کر سکتے ؟ افطاری کی دعوتوں کا حساب لگانا ہو تو رمضان میں کسی بھی ریستوران میں افطاری کے وقت بغیر بکنگ چلے جایئے ۔مومنوں کو کھاتے دیکھ کر روح خوش ہو جائیگی ۔ایک مرتبہ تو ایک ”عالم دین“نے مبینہ طور پر ٹی وی پر یہ ”فتویٰ“بھی صادر فرما دیا تھا کہ ناجائز منافع خوری سے افطاری کی دعوت کرنا شرعاً جائز ہے ۔یہی وہ طرزِ فکر ہے جس کے زیر اثر ہم افطار ڈنر تو ڈٹ کے کرتے ہیں ،مگر اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس ڈنر کا ذریعہ آمدن حلال ہے کہ نہیں !شعیب منصور کی فلم ”خدا کیلئے“ کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے ”ہم وہ لوگ ہیں جو حرام مال جیب میں ڈال کر حلال گوشت کی دکان ڈھونڈتے ہیں !“ہمارے ہاں روزوں کے اوقات میں کھانے پینے کی دکانیں ،تندور اورریستوران وغیرہ بند رہتے ہیں، اس کی وجہ آج تک سمجھ میں نہیں آئی ؟ کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ روزہ داروں کی دل آزاری نہ ہو ؟ اگر ایسا ہے تو وہ روزہ دار ہی کیا جو صبر کا مظاہرہ نہ کر سکے ،روزہ تو نام ہی ضبط کا ہے ۔اگر یہ پابندی ہے تو کیسی پابندی ہے جو پھلوں کی ریڑھیوں اور پکوڑوں اور سموسوں پر اپلائی نہیں ہوتی ؟ فائیو سٹار ہوٹل،ہسپتال کی کینٹین اور ریلوے سٹیشن کی حدود میں واقع کھانے پینے کے سٹال بھی اس پابندی سے غالباً اس لئے مستثنیٰ ہیں کہ مسافر اور بیماروں پر روزہ فرض نہیں تو ان مزدوروں کا کیا قصور جو اس تپتی گرمی میں اینٹوں پر سرپٹختے ہیں ،وہ بیمار بھی ہوں تو انہیں کام سے استثنیٰ حاصل نہیں ،کیا ان کیلئے کھانے پینے کی دکانیں کھول دینے سے روزہ داروں کا ایمان کمزور پڑ جائے گا؟جنرل ضیا کا نافذ کردہ ”احترام رمضان آرڈیننس 1981“آخر اسلام کے کس اصول کے تحت لاگو ہے ؟جس ملک میں احترام رمضان آرڈیننس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تو گرفتار کر کے جرمانہ عائد کر دیا جائے جبکہ خود کش بمباروں کے نظریات کی حمایت میں تاویلیں تراشی جائیں، اس ملک میں ریاست بھیگی بلی بن کر مذاکرات کی دُہائی نہیں دے گی تو اور کیا کریگی!
تفنن برطرف، مگراپنی تمام تر نالائقی کے باوجود میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ جس قوم کو رمضان جیسا بابرکت مہینہ نصیب ہو ،وہ قوم اب تک بد نصیبی سے کیوں نہیں نکل سکی ؟ کیا وجہ ہے کہ رمضان میں دن رات خدا سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے باوجود بطور قوم ہماری مصیبتیں کم نہیں ہو پارہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم نماز میں خدا سے سیدھے راستے پر چلنے کی دعا مانگتے ہیں اور سلام پھیرتے ہی شیطانی راہ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں؟اس کی وجہ خاصی دل شکن ہے ۔بقول شخصے،روزانہ چرچ جانے سے کوئی شخص کرسچن نہیں بن جاتا بالکل اسی طرح جیسے روزانہ گیراج میں جانے سے کوئی شخص گاڑی کا روپ نہیں دھار لیتا۔ ہمارا مسئلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ روزانہ مسجد جانے کا مطلب ہے کہ ہم اچھے مسلمان ہی، رمضان کے تیس روزے رکھنے کا مطلب ہے کہ ہم دودھ سے دُھل گئے ہیں ،حج کرنے کا مطلب ہے کہ ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے ہیں اور عید الضحی پر قربانی کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے سنت ابراہیمی کا حق ادا کر دیا ۔یہ تمام فرائض اپنی جگہ مگر انہیں انجام دینے کے بعد یہ سمجھ بیٹھنا کہ اب ہم خدا سے جو بھی دعا مانگیں گے وہ قبول ہو جائے گی یا ہمیں جنت میں داخلے کا وی آئی پی پاس مل گیا ہے ،ایساہی ہے جیسے کوئی ملازمت پیشہ شخص صبح وقت پر دفتر آئے اور وقت پر جائے اور کسی سائل کا جائز کام نہ کرے اور سمجھے کہ اس نے حق ملازمت ادا کر دیا ہے ،حالانکہ وقت کی پابندی تو ایک بنیادی فرض ہے جو اسے تنخواہ کا اہل بنانے کی کم ترین شرط ہے ۔ہم بھی اپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی کے بعد خدا سے پوری ”تنخواہ بمع بونس“ کے دعوی دار بن بیٹھتے ہیں جبکہ خدا نے ہمارے ”کنٹرکٹ“ میں جو دیگر ToRsدرج کی ہیں ان پر عمل کرنا تو کجا کبھی انہیں پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خدا فرماتا ہے ”نیکی یہ نہیں کہ تم نے اپنی چہرے مشرق کی طرف کر لئے یا مغرب کی طرف،بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر ،مسکینوں اور مسافروں پر،مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰة دے ۔اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں ،اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں ۔یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی متقی لوگ ہیں ۔“سورة البقرة،آیت 177۔اس اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں یوں تو ہم سارے ہی خدا کے چہیتے بنے بیٹھے ہیں لیکن حال ہمارا یہ ہے کہ ٹریفک کے اشاروں کی خلاف ورزی کرنے سے لے کر ٹیکس چوری کرنے تک اور شہر میں کوڑا پھینکنے سے لے کر یتیم کا مال کھانے تک ہمارے ماتھے پر پسینے کی بوند بھی نمودار نہیں ہوتی ۔ زکوٰة کے پیسے نکالتے وقت بھی انوکھی سے انوکھی تاویلیں تلاش کر کے اپنی پسند کے مولوی سے اس نیت سے سوال کرتے ہیں کہ جس کے جواب میں کم سے کم زکوٰة دینی پڑے جبکہ اللہ کا حکم ہے کہ اپنا دل پسند مال غریبوں پر خرچ کرو ۔اور یہ بھی ایک ڈھکوسلہ ہے کہ پاکستانی صدقہ و خیرات میں بہت آگے ہیں ،حقیقت بے حد تلخ ہے ،اس کا بیان پھر سہی۔فی الحال افطاری کا ٹائم ہو رہا ہے اور پکوڑوں کے لئے دم نکلا جا رہا ہے ۔
تازہ ترین