• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت عرصہ کے بعد شانتی دیوی کی میل ملی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تعلق کی دنیا میں کچھ لوگ ہمیشہ اپنے بنے رہتے ہیں۔ وہ اب بھی کام کر رہی ہے اور زندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس کی میل میں ایک سوال تھا اور سوال بھی ایسا جس پر مجھے حیرانی ہوئی کیونکہ یہ سوال کم اور ایک تلخ سچائی زیادہ تھی، ’’پاکستان کب درست ہوگا؟‘‘ اس وقت ’’کب‘‘ کا جواب دینا مشکل ہے مگر ہم ’’کب‘‘ سے ایسی صورتحال سے دوچار ہیں، جب فرنگی سرکار نے بھارت کے حوالے سے اپنے مفاد کے پیشِ نظر یہ تلخ فیصلہ کیا کہ یہ ملک اپنی آزادی کے ساتھ اپنا نظام قائم کرے مگر مشکل یہ تھی کہ اکثریت اقلیت کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھی۔ پھر اس زمانے میں آزادی کا تصور بھی اتنا قابلِ فہم نہ تھا۔ برطانیہ دنیا بھر میں اپنی پہچان ایک غاصب ملک کے طور پر کروا چکا تھا مگر اُس کے اپنے ملک میں ایک نظام ضرور موجود تھا، وہ تھا انصاف کا نظام۔ فرنگی نے قانون کو اہمیت دی اور کوشش کی کہ عام آدمی بھی انصاف کو حاصل کر سکے۔

پھر فرنگی کو ہندوستان کی تقسیم کرنا پڑی۔ شروع شروع میں فارمولہ بہت آسان سا تھا، جتنے بھی قابلِ ذکر مقامی حکمران تھے ان سے پوچھا تو نہیں گیا مگر ان کو خودمختاری کی نوید ضرور دی گئی۔ بظاہر دوسری جنگِ عظیم میں تین نمایاں فاتح ممالک برطانیہ، امریکہ اور روس مال غنیمت میں حصہ دار تھے۔ ہندوستان بھی مالِ غنیمت میں شامل تھا مگر مشکل یہ تھی کہ برطانوی نوآبادی قدامت پسندوں کے حوالہ سے تقسیم پر تیار نہ تھی۔ برطانیہ نے امریکہ اور روس سے مشاورت کی پھر دوسری جنگ عظیم کے یہ سب حلیف تھے، امریکہ اور روس نے برطانیہ کو مناسب فیصلہ کرنے کی آزادی بھی دی۔ برطانیہ نے ہندوستان میں ایک نئے نظام کی بنیاد رکھی جو ملکہ برطانیہ کے نامزد حکمران گورنر جنرل کے زیر سایہ اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتے تھے۔ انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا، کچھ نامور لوگ عوام کے نمائندے بن کر سامنے آئے اور عوام کی وراثت کی تقسیم کا سوچا گیا، قانون بنائے گئے مگر ہوا کیا کہ انصاف نہ ہو سکا اور آزادی مسئلہ بن گئی۔

شانتی دیوی کا سوال تھا کہ پاکستان کب درست ہوگا؟ ماضی قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا، ملک میں قانون اتنے ہیں کہ ہر کوئی ان سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ پھر ایک نئی قانونی کلاس وجود میں آچکی ہے جو عام زبان میں تو وکیل کہلاتے ہیں اور قانون کی ڈگری کے بعد بار کونسل سے لائسنس لے کر قانون کے مطابق کارروائی میں مدد کرتے ہیں مگر ان کے ذریعے انصاف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے پھر ہماری عدلیہ مقدمات کے بوجھ تلے دبی آرام اور سکون سے مقدمات کو دیکھتی ہے مگر ان کا طریقہ کار ایسا ہے کہ عوام کی داد رسی ممکن نہیں ہوتی اور وہ کارِ سرکار کے قوانین کے خلاف اپنے طور پر انصاف کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ ایسے میں عوام کے مقدمے کی باری کب آسکتی ہے؟ کچھ وکیلوں اور بار کونسلوں کا گٹھ جوڑ ملک کے قوانین کے لئے ایک مسئلہ ہے اور ایسے میں انصاف کی بات کرنا ان کے مفادات کے خلاف ہے۔ جب ایسا ہو تو کہاں سے ملک کو درست کرنے کا سوچا جا سکتا ہے؟ ہاں لوگ ضرور سوچتے ہیں کہ وکیل حضرات اپنا مقدمہ کیوں دائر کرتے رہتے ہیں؟


ملک کی درستی میں ایک اور بڑی رکاوٹ ہماری بیمار اور لاچار جمہوریت ہے اور اس وقت ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کے باعث جمہوریت کا کھیل کھیلتی ہے اور ان کے نزدیک ملک کو چلانے اور اپنے آپ کو منوانے کے لئے جمہوریت سے بہترین کوئی اور نظام نہیں ہو سکتا۔ ابھی میں سوشل میڈیا پر شہباز شریف کے ترجمان احمد خان کا ایک فرمان دیکھ رہا تھا:

دو چہرے، دو نظام، دو پاکستان

میڈیا کو آئی نہ شرم، نہ عدلیہ ہوئی پریشان

احمد خان لاہور کے فرنگی اسکول ایچی سن کے تعلیم یافتہ ہیں، اچھی گفتگو اور نرم لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ذمہ دار سیاست دان ہیں مگر وہ سابق خادم اعلیٰ شہباز شریف کے ترجمان کی حیثیت میں بات کرتے ہیں تو پریشانی ہوتی ہے کہ میڈیا پر الزام تراشی کی جا رہی ہے، اُس میڈیا پر جو ان کا بہت زیادہ حامی ہے ۔

اس وقت عمران خان مقدر کا سکندر ہے، وہ ملک کو چلانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس کو کتنی کامیابی مل رہی ہے ،یہ بھی ہنوز ایک مشکل سوال ہے۔ہماری سیاسی اشرافیہ اور ان کے نورتن جن میں بلاول زرداری بہت ہی نمایاں ہیں،ان کا راگ ہے کہ ہم جلد ہی اس ظالم اور شاطر سرکار کو بے کار کر دیں گے اور ان کی کوشش کو تین سال ہونے کو ہیں مگر نتیجہ صرف اور صرف خالی خولی دعوے اور اس جنگ میں وہ اپنے وقتی حلیف پی ڈی ایم کے ساتھ بھی ہے ۔مولانا فضل الرحمٰن ان سے خوش نہیں وجوہات بہت متنازعہ ہو سکتی ہیں۔اگر مریم نواز خوش ہیں تو شہباز شریف ناراض، ایک طرف ان کے والد سابق صدر پاکستان کا فرمان ہے کہ شریف لوگوں پر کبھی اعتبار نہ کرنا دوسری طرف شہباز شریف ،بلاول زرداری کو شیشے میں اتارتے نظر آتے ہیں مگر من کسی کا بھی صاف نہیں، ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں اور عوام کو دھوکے میں رکھ رہے ہیں اور جمہوریت ایسا کردار ادا کرنے میں اُن کی مدد بھی کر رہی ہے ۔ابھی میں سوشل میڈیا پر ایک صاحبِ فکر کی تشویش دیکھ رہاتھا ۔

دو سیاسی خاندان ایک نظریہ

یہ ملک کیسے درست ہوسکتا ہے خدمت کے جذبے سے سرشار قومی اسمبلی کے ممبران اپنی تنخواہ پر خوش نہیں، یہ واحد ادارہ ہے جو اپنی مراعات اور تنخواہ خود طے کرتا ہے یہ ہیںہمارے سیاست دان ۔پھر یہ سب عمران خان کو اپنا مخالف خیال کرتے ہیں اور عوام کو قربانی دینے کا درس دیتے ہیں نہ خود قربان ہوتے ہیں، وہ تو شکر ہے کہ ان کی وجہ سے جمہوریت بےبس ہےاور ایسے میں شانتی دیوی ملک کو درست کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟

تازہ ترین