• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوستو!کالم کے عنوان کو ڈاکٹر قدیر خان کے اس بیان کی روشنی میں مت لیجئے کہ ”دودھ جلیبیاں بیچنے والے صدر بن گئے ہیں“ اگرچہ پاکستان کے نامور ایٹمی سائنس دان کا بیان بڑا دلچسپ ہے مگر میں ایک اور بوٹے کی بات کرنے والا ہوں ۔دراصل بوٹا جلیبیاں والا وہ کردار ہے جس سے ہم بچپن میں جلیبیاں کھاتے رہے ہیں ۔بوٹے کو اپنی جلیبیوں پر بڑا ناز ہوتا تھا۔ اسے فخر تھا کہ اس جیسی جلیبیاں کوئی نہیں بناتا ۔ صدارتی الیکشن کے موقع پر ڈاکٹر قدیر خان کا دلچسپ بیان نظروں سے گزرا تو دو سوال ذہن میں گردش کرنے لگے۔ پہلا سوال یہ کہ بوٹے کی قسمت بھی جاگ سکتی تھی اگر وہ جلیبیاں کسی جماعت کے سربراہ کو کھلاتا اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ تھوڑی سی ربڑی بھی کھلا دیتا۔ افسوس قسمت بوٹے کاساتھ نہ دے سکی۔ دوسرا سوال ذہن میں بار بار گردش کرتا رہا کہ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنس دان عبدالکلام کو منصب صدارت پر بٹھا دیا اور ہم نے اپنے ہیرو کے ساتھ جو کیا وہ کسی زیرو کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ تھک ہار کر وہ سیاست میں آیا تو سیاست دانوں کی چالبازیاں دیکھ کر سیاست سے بھی کنارہ کش ہو گیا ۔ اب وہ صرف کالم لکھتا ہے اور فلاحی کام کرتا ہے۔ مجھے بوٹے اور قدیر خان کا برابر دکھ ہے کیونکہ ایک میرے بچپن کا ہمسایہ تھا اور اب قدیر خان صاحب بنی گالہ میں میرے ہمسائے ہیں۔ ہمسائے تو خیر احسن اقبال بھی ہیں مگر وہ بڑے آدمی ہیں، ایک اور بڑے آدمی طارق فاطمی بھی ہمسائے ہیں۔ تیسرے بڑے آدمی ریاض پیرزادہ بھی ہمسائیگی میں شامل ہیں۔ میں نے ان تینوں کو بڑا آدمی اس لئے کہا کہ میں نے اس وقت مولانا فضل الرحمن کے قومی مفاداور الطاف حسین کے وسیع تر قومی مفاد کی عینک لگائی ہوئی ہے۔ مولانا صاحب اور الطاف حسین کے نزدیک صرف اہل اقتدار بڑے آدمی ہوتے ہیں۔ الزام ہے کہ یہ دونوں سیاست دان اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کسی کا آمر ہونا یا جمہوری ہونا کوئی معنی نہیں رکھتاشرط صرف یہ ہے کہ وہ اقتدار میں ہو۔ سب کو بہت مبارک ہو کہ ایک مرتبہ پھر سے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم اقتدار کی غلام گردشوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ میاں نواز شریف صاحب کو بھی مبارک ہو کہ وہ لندن میں ہونے والی اے پی سی کی تمام باتیں بھول کر اسٹیبلشمنٹ کی باتیں مان گئے ہیں۔ ممنون حسین صاحب کو بھی صدر مملکت بننے پر مبارکباد۔ انہیں ایک مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی پرانی وضع داری اور روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین کھانے اور ربڑی ایوان صدر میں رکھ لیں اور اپنے پارٹی قائد کو بھجواتے رہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے حالیہ صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا، پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو ہدف تنقید بنائے رکھا ۔مخدوم امین فہیم نے کہا کہ بھٹو کے قتل کا خون عدلیہ کے چہرے پر ہے۔ بھٹو کی پارٹی نے حالیہ الیکشن کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے بائیکاٹ کیا ۔ اے این پی نے وفاداری کی رسم نبھائی جبکہ پی پی کے دو سابقہ اتحادی متحدہ اور جے یو آئی (ف) یہ وفاداری بھی نہ نبھا سکے۔ نامور قانودان، شاعر، ادیب اور معروف پارلیمنٹیرین چوہدری اعتزاز احسن نے حالیہ صدارتی الیکشن کو مکمل طور پر غیر آئینی قرار دیا ہے اس الیکشن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی ایک قرارداد منظور کی ہے اور اسے عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک مرتبہ پھر اپنی سیاست کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے۔ ویسے تو عمران خان فخرو بھائی کے زیر سایہ کرائے گئے جنرل الیکشن میں دھاندلی کا رونااب تک روتے ہیں مگر حیرت ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر فخرو بھائی کی سرپرستی میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں حصہ لے لیا۔ایک طرف وہ اسے عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی غیر جمہوری حرکت قرار دیتے ہیں،جنرل الیکشن میں دھاندلی کا الزام ریٹرننگ آفیسرز اور الیکشن کمیشن پر عائد کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دراصل عمران خان کے گرد چند ایسے سیاسی نابالغ ہیں جو انہیں سیاسی فیصلے نہیں کرنے دیتے۔ بعد میں انہیں فیصلوں پر عمران خان کو پشیمان ہونا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف میں بار کی سیاست چمکانے والے عمران خان سے غلط فیصلے کروا دیتے ہیں۔ جب ان غلط فیصلوں کے نتائج سامنے آتے ہیں تو پھر بے چارے عمران خان کو کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے سولہ سال جس ادارے کی سربلند ی کا پرچم تھامے رکھا مگر اس نے وہ کچھ نہیں کیا جس پر ناز کیا جا سکے۔ اب بھی صدارتی الیکشن کے موقع پر جب پیپلزپارٹی کا وفد عمران خان کے پاس گیا تو وہ بائیکاٹ کیلئے بڑے سرگرم تھے پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ راتوں رات یہ سرگرمی سرد مہری میں تبدیل ہو گئی۔ اس فیصلے کا خمیازہ بھی عمران خان کی سیاست کو بھگتنا پڑے گا۔
اس الیکشن کے بعض فیصلے لاجواب ہیں جیسے مبینہ طور پر جمشید دستی سمیت بہت سے جعلی ڈگری ہولڈر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں لیکن عائلہ ملک اور ثمینہ خاور حیات کو نااہل قرار دے دیا گیا حالانکہ اس الیکشن میں ڈگری کی اہلیت ضروری نہیں۔
قوم کو مبارک ہو کہ عید سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ نئی حکومت بھارت سے محبت کے گیت گاتی ہے اسی لئے شاید وزیراعظم کے انتخاب پر جاتی عمرہ (امرتسر) اور صدر کے انتخاب پر آگرہ میں خوب خوشیوں کا مظاہرہ کیا گیا۔ ملکی حالات اور سیاست پر مجھے عہد حاضر کے نامور شاعر فرحت عباس شاہ کی ایک غزل رہ رہ کے یاد آ رہی ہے کہ
دیکھ لینا کہ کسی دکھ کی کہانی تو نہیں
یہ جو آنسو ہیں کہیں اس کی نشانی تو نہیں
دِکھ رہی ہے جو مجھے صاف تیری آنکھوں میں
تو نے یہ بات کہیں مجھ سے چھپانی تو نہیں
جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار تیرا
یہ اجڑنا ہے کوئی نقل مکانی تو نہیں
یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مجھ سے فرحت
بدنصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں
تازہ ترین