• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بلاشبہ پاک، امریکہ دوطرفہ باہمی مفادات کی ایک مخصوص فیصد میں اب بھی اہم ضرورت باقی ہے، اس کے ساتھ جڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ دونوں کی جاری و ساری رسمی سفارتی سرگرمی کے باوجود دونوں کا فاصلہ کافی ہو چکا ہے۔ واشنگٹن تو اسے فقط فن کارانہ سفارتی ابلاغ سے کم کرنے یا قائم موجود صورت تک رکھنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ اس کےبرعکس پاکستان اپنےلئے خطے کی نئی سازگار صورتحال میں، ہر حالت میں ’’امریکہ کو خوش رکھنے‘‘ یا اس کی ’’ناراضی سے بچے رہنے‘‘کے لئے مسلسل سفارتی پاپڑ بیلنے کی لاحاصل کوششوں سے آزاد ہو چکا ہے۔ اسلام آباد کا تلخ تجربہ ہے کہ پاپڑ بھی جس طرح ملتا ہے، یہ مول خسارہ ہی خسارہ ہے۔ اس کے باوجود پاکستان اس سفارتی حقیقت کو بدستور اور عملاً تسلیم کئے ہوئے ہے کہ امریکہ کی ہی طرح دو طرفہ قابلِ قبول تعلقات کی صورت نکالے رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بھی مستقل نکتہ رہنا چاہئے۔ بدلتے سخت غیر مطلوب رنگ کے باوجود امریکہ کا پاکستان کو بھی مثبت انداز میں انگیج رکھنا، پاکستان کے مقابل واشنگٹن کا زیادہ بڑا سفارتی ہدف اور ضرورت ہے۔ وہ اگر اسے نظر انداز کرتا ہے یا روایتی سوچ و اپروچ سے پاکستان کو جملہ اقسام کے دبائو میں لا کر اپنا مطلب نکالنے کی روش کو ہی اختیار کرتا ہے تو یہ لاحاصل ہوگا،نتیجتاً دونوں سابقہ انتہائی نتیجہ خیز اتحادیوں کی مزید دوری ہی ہوگی۔ اس کا عملی ثبوت حال ہی میں متعدد حوالوں سے مل چکا۔ اسلام آباد کی پالیسی تو ہے ہی پاکستانی عوامی جذبات و احساسات سے ہٹ کر ان کے اذہان پاکستانی خارجہ پالیسی سازی میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ سابقہ مثالی اتحادی کی اس نئی صورتحال کو امریکہ نہیں سمجھ پا رہا۔ پہلے تو اسلام آباد کی امریکی فرمائشوں اور خواہشات پر پاکستانی فیصلہ سازی میں عوامی جذبات و احساسات کو نظر انداز کرنا آسان تر تھا، تبھی تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی بمقابلہ ریمنڈ ڈیوس، سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملہ، ڈرون حملوں میں اہداف کے مقابل کئی گنا زیادہ بےگناہ شہریوں کی ہلاکتیں، پاکستانیوں کو اندھیرے میں رکھ کر ایبٹ آباد آپریشن نیٹو کے زیر قبضہ نیٹو اور افغان افواج کے سرگرم ہوتے، افغان سرزمین سے پاکستان مخالف بھارتی ریاستی دہشت گردی کے جملہ حربوں کی کھلی آزادی، دنیا میں سب سے زیادہ پاکستانیوں پر ہونے والے خود کش حملے اور ان سے ہونے والے جانی و مالی نقصان، جس کی انتہا پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے خونی کھیل پر ہوئی، کے حقائق پر مبنی اطلاعات و تجزیے پاکستانیوں خصوصاً صاحب الرائے طبقے کے قلب و ذہن میں رچے بسے ہیں۔ یہ ایک الگ تحقیق و مطالعے کا موضوع ہے کہ یہ تحقیقی مفروضہ بالکل قریب الحقیقت ہے کہ ’’پاکستانی رائے عامہ آج جتنی اپنی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو رہی ہے شاید دنیا کےکسی اور ملک میں نہیں ہو رہی‘‘ یہ ہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر،کابل میں مکمل تابع حکومت، نیٹو کی موجودگی میں افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کے حملوں کاطویل ترین ہولناک سلسلہ۔ ان تمام حوالوں سے پاکستان کی حکومت، اپوزیشن، مسلح افواج اور قومی زندگی کے دھارے میں شامل ہر طبقہ یک رائے اور قومی موقف پر یکسو ہے۔

پاکستان یقیناً آج اپنی قومی اقتصادیات کے حوالے سے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی ڈیپ اسٹیٹس کے پریشر ٹولز کے دبائو میں مبتلا ہے لیکن اتنے ہی اس کے اپنے دبے اور دبائے گئے جامد پوٹینشل کے جاگنے کے امکانات بھی واضح ہیں۔ سی پیک کے عملی آغاز پر بھارت اور امریکہ کا جس طرح حاسدانہ اور مکمل آئوٹ آف دی وے ردعمل آیا پاکستان ہی نہیں خطہ اور دنیا بھی اسے خوب جانتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟

یہ بھی اب واضح ہوگیا کہ صدر جوبائیڈن کی انتخابی مہم پر ہیومن رائٹس کے تحفظ کو یقینی بنانے کا متاثر کن بیانیہ امریکہ کے خطوں پر بالادستی قائم رکھنے اور کرنے اور چین کی بڑھتی اقتصادی اٹھان کے اپنی سرحدوں سے باہر ترقی پذیر دنیا میں شیئر ہونے کی راہ بند کرنے کے لئے پس پشت ڈال دیں روایتی، امریکی انتظامیہ کی طرح کوئی مشکل نہ ہوگا۔ اس کا عملی اظہار اور تصدیق صدر جوبائیڈن کی جنرل اسمبلی میں حالیہ تقریر سے ہوئی جس میں انہوں نے دوطرفہ اور خطوں کے تنازعات اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی فہرست بیان کرتے مقبوضہ کشمیر کا ذکر گول ہی کردیا (شاید کہ نیچر ل پارٹنر ناراض نہ ہو جائے) جبکہ جوبائیڈن نے انتخابی مہم میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی اورطویل تر خلاف ورزیوں کی بار بار مذمت کی اور انہیں اقتدار میں آ کر سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کا یقین دلایا، یہ اب بھارت کی ’’کواڈ‘‘ میں ایڈجسٹمنٹ کو جاری رکھنے پر پس پشت چلا گیا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے امتیازی تشخص کا بھرم برقرار رکھنے کی پالیسی اور سیاسی ابلاغ میں توازن کا جو مظاہرہ، خود صدر بائیڈن اور نائب صدر کمیلاہیرس نے وزیراعظم مودی سے اپنی حالیہ ملاقات کے فوراً بعد مختصر بریفنگ میں کیا، جس میں ہر دو امریکی قائدین، وزیر اعظم مودی کو جمہوری اور انسانی اقدار کا درس دیتے صاف نظر آئے، لیکن وزیراعظم مودی کی واپسی پر ’’سبق‘‘ کے خلاف ماحول کو اور بڑھانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جو کچھ آسام میں عشروں سے آباد مسلمانوں کو فوج اور پولیس کی مدد سے بے دخل کرنے کے لئے کیاگیا اور ہو رہا ہے، وہ دہشت گردی نہیں؟ جس طرح محبوس و مقہور کشمیر میں پھر ہفتہ وار کشمیریوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں، مسلمانوں، سکھوں اور اب عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کاسلسلہ آر ایس ایس نے فوج اور پولیس کی مدد سے ہلاکتوں میں تبدیل کردیا ہے لیکن یہ سب کچھ بائیڈن انتظامیہ کو ہضم ہو ر ہا ہے۔ اسی طرح امریکی صدر کے جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین کو دو ریاستی تجویز پر عمل کرکے حل کرنے کی حمایت کرنے کے بعد ایسٹ یروشلم میں فلسطینی بستیوں اور مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں صہیونی شرانگیزیاں بھی قابل ہضم ہیں۔ یہ درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر، بھارت اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں کھلی ریاستی دہشت گردی امریکی انتظامیہ کے لئے گراں نہیں اور اس کا براہ راست بظاہر تعلق پاک،امریکہ تعلق سے نہیں بنتا، لیکن اسرائیل اور بھارت میں پائے جانے والے ریاستی رجحانات اور ان پر امریکی خاموشی پاکستان، امریکہ تعلقات کو نئے ماحول میں پہلے سے کہیں زیادہ متاثر کرتی معلوم دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین