• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید میری یہ تحریر بعض لوگوں کو اچھی نہ لگے۔ کیونکہ ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے ہم لوگ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ اور کڑوی چیز کو کون پسند کرتا ہے۔ ہماری یہ ریت بن گئی ہے کہ سچ بولنے والا آخر تنہا رہ جاتا ہے۔ لوگ اس سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ ہم ہی تھے کہ سابق صدر ایوب خان مرحوم کو کن کن نازیبا ناموں سے یاد کرتے تھے۔ جس میں زیادہ حصہ ہمارے پڑھے لکھے افراد اور سیاستدانوں کا تھا۔ ان کے جانے کے بعد عوام نے جن میں زیادہ تر ان پڑھ تھے، ٹرکوں کے پیچھے بھی لکھوایا ’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ اور بعض لوگ آج ان کے شروع کے پانچ سالہ دور کو سنہری دور کہتے اور مانتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کے لئے جو سب سے عظیم کارنامہ سرانجام دیا وہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد تھی جو انہوں نے رکھی۔ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے والے کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔ آج وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے جن کو ہم پہلے محسن پاکستان اور ملت اسلامیہ کا ہیرو کے خطابات سے یاد کرتے تھے۔ میری مراد ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم سے ہے۔ انہوں نے اپنا سارا علم، تجربہ اور زندگی پاکستان پر لٹا دی۔ ہم نے ان کی عزت و آبرو کے ساتھ دنیا کے سامنے کیا کیا۔ اس وقت کوئی پاکستانی نہیں بولا۔ جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے انجام پر نہیں بولاتھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے بانی پاکستان اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔ پاکستان کی خاطر نوابوں کی زندگی چھوڑ کر آنے والے لیاقت علی خان کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہم محسن کش ہیں تو کسی کو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ اگرچہ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن جیسا کہ مریض کڑوی دوااپنی صحتیابی کیلئے برداشت کرتا ہے۔ اسی طرح ہمیں اپنی اصلاح کے لئے سچ کو تسلیم کرنا چاہئے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان اب ہم میں نہیں رہے۔ میرے جیسے پاکستانی اب ان کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا ہی کرسکتے ہیں اور اتنا ان کا حق تو ہم پر واجب ہے۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا یا بہ الفاظ دیگر کیا گیا وہ تو ہوا لیکن اس کے بعد بھی کسی نے ان کا نہیں پوچھا تو ان کے دیگر بڑے شکوئوں کے علاوہ یہ شکوہ تو تسلیم کرکے ان سے معذرت کی جاسکتی تھی۔ لیکن ہم نے یہ تک ضروری نہیں سمجھا۔ اب ہم کیا کہیں کہ چند قدم کے فاصلے پر ہوتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ان کے جنازے میں شرکت بھی نہ فرمائی۔ جیسا کہ ان کی زندگی کے آخری برسوں میں کسی نے نہیں پوچھا۔ کسی نے خوب کہا ہے۔

میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک پوچھا

میں یہ کیسے مان جائوں کہ وہ دور جا کے روئے

البتہ حکومت پاکستان نے یہ احسان ضرور کیا کہ ان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ یہ وہی بات ہوئی بقول شاعر

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

اللہ رحمان و رحیم ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم بعد از مرگ واویلا اور تعریف و توصیف کے پل باندھنے کے بجائے اپنے محسنوں، عزیزوں اور دوستوں کی خیر خواہی کیلئے ان کی زندگی میں ہی کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کریں۔ دنیا فانی اور زندگی بہت مختصر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’دنیا لہو و لعب اور زندگی محض کھیل تماشا ہے‘‘۔ ہم سب کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب مریں گے تو دیکھا جائے گا۔ ایسا کہنا بھی گناہ ہے۔

مولائے کائنات سے کسی نے پوچھا کہ مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہے۔ تو بحر علم نے فرمایا’’ کہ مسلمان وہ ہے جو اللہ پاک کو مانتا ہو اور مومن وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مانتا ہو‘‘۔ ذرا تاریخ کا مطالعہ کریں کیسے کیسے جابر اور طاقتور بادشاہ بھی آخر کار اس دار فانی اور تمام مال او اسباب چھوڑ کرگئے۔ پیغمبر اور اولیاء بھی دنیا سے پردہ کرگئے۔ آج گزرےبادشاہوں کے محلات کو آثار قدیمہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لوگ دیکھنے تو جاتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ تاریخ نے تو وقت کے بادشاہوں کو گدا بنتے بھی دیکھا ہے اور اگر غور کریں تو یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی چل رہا ہے لیکن آج بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا۔ ’’زمین میں سیر کرو یعنی چلو پھرو کہ ہم نے گمراہوں کو کیسے نشان عبرت بنایا اور ان کی نشانیوں کو آنے والوں کے لئے چھوڑا تاکہ وہ عبرت حاصل کریں۔‘‘ لیکن صد حیف کہ ہم آج بھی عبرت حاصل کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور جن پر اللہ کریم نے فضل فرمایا ہے وہ دنیا کی رنگینیوں میں گم ہیں۔ عوام کو دیکھیں تو وہ بھی حسب استطاعت بدی اور گناہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بعض اشیا میں مہنگائی کی آڑ میں خود ساختہ اضافہ، ملاوٹ، جھوٹ، غیبت، فحاشی، سود، بدنیتی، حسد، ظلم، لڑائی جھگڑے، قتل و غارت، ناانصافی، معصوم بچوں اور بچیوں کا اغوا اور پھر ان کے ساتھ بدفعلی اور قتل، زنا اور پتہ نہیں کیا کیا۔ ان گناہوں میں ہم سب ملوث ہیں۔ لیکن نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزہ، حج بھی کرتے ہیں اور مسلمانی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ نہ ہمیں اللہ تعالیٰ قہار و جبار کا خوف ہے نہ اس کے سامنے شرمندگی ہے۔ کیا ہمارا ظاہر و باطن ایک ہے؟

تازہ ترین