• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں عام طور پر وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے جس کا پاکستان کی حکمران پارٹی سے براہ راست یا بالواسطہ کسی قسم کا تعلق ہو۔ گزشتہ انتخابات کے وقت پاکستان میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار تھی تو آزاد کشمیر میں اسی پارٹی کو اکثریت ملی اور وہ 5سال تک اقتدار سے متمتع ہوتی رہی۔ اس بار عوام نے یہ مینڈیٹ مسلم لیگ ن کو دیا ہے تو یہ عام توقعات کے عین مطابق ہے البتہ اس کا تقریباً کلین سویپ کرنا مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر وزیراعظم نواز شریف کے واضح موقف کا نتیجہ اور پاکستان سے کشمیری عوام کی گہری محبت اور وابستگی کا آئینہ دار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو آخری نام نہاد انتخابات ہوئے تھے ان کا حریت کانفرنس کی اپیل پر عوام نے بائیکاٹ کیا تھا۔ تاہم فوج اور پولیس نے لوگوں کو زبردستی گھر گھر سے نکالا اور ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا اس سے وہاں انتخابی ہنگامے ہوئے اور کئی لوگ مارے گئے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ کہیں کہیں معمولی تو تکرار کے سوا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا اور مجموعی طور پر پولنگ پرامن رہی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کے یکساں مواقع ملے اور عوام نے آزدانہ ماحول میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ مسلم لیگ ن کو 41میں سے 31نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک سابق وزیراعظم اور تقریباً تمام موجودہ وزرا ہار گئے جمہوریت میں ہارجیت معمول کی بات ہے جمہوری ملکوں میں ہارنے والے حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شکست تسلیم کرتے اور جیتنے والوں کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سوشل میڈیا پر وزیراعظم نوازشریف کو مبارکباد دے کر بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے تاہم پیپلزپارٹی نے نتائج مسترد کر دیئے ہیں اور مسلم لیگ ن پر پری پول دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ یہ فیصلہ تو الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں ہی کریں گی کہ ان الزامات میں صداقت کہاں تک ہے تاہم مبصرین یہ نکتہ ضرور اٹھا رہے ہیں کہ آزاد کشمیر میں حکومت پیپلزپارٹی کی تھی، اقتدار اس کے پاس جبکہ انتخابات کے اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس تھے اور پولنگ بھی پہلی بار فوج کی نگرانی میں ہوئی تو مسلم لیگ ن نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دھاندلی کیسے کردی درحقیقت انتخابات میں ہارنے کے بعد دھاندلی کا شور مچانا ہماری سیاسی روایت بن چکی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کامیاب امیدواروں کو مبارکباد دیتے ہوئے درست کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے پرامن انتخابات جمہوری قوتوں کی فتح ہے گویا یہ ہر اس شخص کی فتح ہے جس نے جمہوری عمل میں حصہ لیا جو ہار گئے انہیں اپنی ان غلطیوں اور خامیوں کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہئے جن کی وجہ سے عوام ان سے ناراض ہوئے خاص طور پر پچھلے 5 سال سے حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو سوچنا چاہئے کہ بلند بانگ دعوئوں سے قطع نظر اس نے عوام کے لئے کیا کیا ہے وفاق یا پنجاب پر اعتراض کرنے کی بجائے اسے سندھ کو رول ماڈل بنانا چاہئے اسی طرح تحریک انصاف کو چاہئے کہ خیبر پختونخوا کو رول ماڈل بنائے تا کہ دوسرے اس سے سبق سیکھیں پانامہ لیکس پرکچھ اعتراضات جائز ہوں گے مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ پنجاب یا وفاق میں کچھ تو ترقیاتی کام بھی ہو رہے ہیں آزاد کشمیر کی نئی حکومت کو بھی اچھے کاموں کے ذریعے آزاد خطے کو مقبوضہ کشمیر اور پوری دنیا کے لئے رول ماڈل بنانا ہو گا آزاد کشمیر میں کرپشن اور گڈ گورننس کے معاملات ہیں تعمیر و ترقی کے مسائل ہیں ہائیڈل پاور کے مواقعے اور سیاحتی مقامات ہیں جن سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ پھر جموں و کشمیر کونسل کے انتظامی اور مالی اختیارات کا جھگڑا ہے مسلم لیگ ن کی نئی حکومت ان مسائل پر توجہ مرکوز کر کے آزاد خطے کو ایک ماڈل ویلفیئر سٹیٹ بنا سکتی ہے جو مقبوضہ کشمیر کے لئے مثال بنے وفاقی حکومت کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے آزاد کشمیر میں آنے والی سیاسی تبدیلی جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کو آگے بڑھانے اور کشمیر عوام کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنے۔
تازہ ترین