• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑی حیرانی ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو ضرورت کے وقت’’ضرورت مند‘‘ بن جاتےہیں اور جیسے ہی ضرورت ختم ہوتی ہے ’’غیرت مند‘‘ کہلائے جانے پر اصرار کرتے ہیں مگر آخری سانس تک ’’احسان مند‘‘کے تعارف سے پہچانے جانے کو اپنی شان کے خلاف گردانتے ہیں …ایسے کئی محسن کش آپ کو اپنے اِردگِرد گھومتے پھرتے اور چھاتیوں پر مونگ دلتے دکھائی دیں گے لیکن جیسے ہی اُن کو اُن کا ’’اصل‘‘ چہرہ اور ’’ماضی‘‘کی دھندلی تصاویر دِکھانے کی کوشش کی جائےتو ایسے آگ بگولا ہوتے ہیں جیسے کہ آتشِ نمرود دہک اُٹھی ہو …ایسے ہی ایک ’’صاحب‘‘ ہیں جنہوں نے اپنے محسن کے ’’سینے سے چمٹ‘‘ کر اپنی تصاویر کھنچوانے کے بعدایک اعلیٰ عہدہ حاصل کیا ، ایسا ہی ایک عہدہ ایک اور ’’چمٹنے ‘‘ والے نے بھی حاصل کیا تھاجوآج کل کسی اور سے ’’چمٹے‘‘ بلکہ ’’لپٹے‘‘ ہوئے ہیں …خیر ’’وہ‘‘جذباتی اور تخیلاتی مخلوق میرا موضوع ہے بھی نہیں بلکہ میں تو اُس عظیم Entertainerکے ذکر کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوںجو 14برسوں سے سب کے سامنے بلا خوف بجا رہے ہیں، میرا مطلب ہے گٹار …اور صاحب کیا خوب بجاتے ہیں، تاروں سے کھیلنا اور یاروں کو کھائی میں دھکیلنا اِن کا محبوب مشغلہ ہے ،گو کہ بے وفائی کے بعد ’’منہ دکھائی‘‘ کی چنداں حاجت نہیں ہوتی لیکن ’’فیلڈنگ سیٹ‘‘ کرنے کی ماہرانہ عادت نےنہ صرف اُنہیں’’ فیلڈ ‘‘کے لوگوں میں ایک عرصے تک مقبول بنائے رکھاہے بلکہ منہ پر غلط بیانی اور ’’دہرے مراسم‘‘ کے حیرت انگیزسراب تخلیق کرنے میں اُنہیں ایک عرصے تک ایسی مہارت حاصل تھی کہ اُنہیںرابطوں کی اصل ’’کلید‘‘ اورباقی سب کو پلید سمجھا جاتا تھاتاہم کچھ عرصے سےدرخواست پر ’’مستعار‘‘ لی ہوئی مُدت کے سہارےاپنی وفاکا یقین دلانے کیلئے ہر وہ جتن کررہے ہیںتاکہ اُنہیں ’’رتن‘‘کی صف سے علیحدہ نہ کیا جاسکے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اُن کی اب وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو سابقہ جماعت سے جُڑے رہنے کے سبب اُنکے Entertainerکےاُس پہلو کو چھپائے رکھتی تھی جس کا بعد میں ’’فارغ‘‘ ہونے کے بعد اُنہوں نے بھرپور مظاہرہ کیا …شاید اُستاد راحت فتح علی خان نے بھی نہیں سوچاہوگا کہ ’’تیری میری، میری تیری پریم کہانی ‘‘ پر موصوف اِس قدر محو ہوکر گِٹار بجائیں گے کہ اگر منصب ’’سرکاری‘‘ نہ ہوتا توآنے والی بھارتی فلوں کی موسیقی ترتیب دینے کے لئےوہ خود اُن سے درخواست کرتے کہ حضور! اب باری آپ کی ہے …
ویسے تو اِنہوں نے آلاتِ موسیقی کے علاوہ فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبوں میں بھی طبع آزمائی فرما کر اپنے بھرپور Entertainerکا بارہا ثبوت دیاہے ، ایک جانب یہ لطیفے بھی اچھے سُناتے ہیں تو دوسری جانب آواز بھی کُمار سانو سے کم نہیں پائی …ہارمونیم اور طبلےسے لے کر چنگ و رُباب کی تمام باریکیوں اور وائلن کی گردن سے نزدیکیوں تک کون سا ایسا ساز اور آواز کا انداز ہے جس سے یہ ایک منفرد Entertainerواقف نہیں! اب یہ اور بات ہے کہ یہ اپنی سابقہ جماعت کو کاذبانہ کلام سے زیادہ عرصے تک محظوظ نہیں کر سکے اور اِنہیں ایک طویل عرصے تک ’’برداشت‘‘ کرنے کے بعد بالآخراُن کے ایک ہی طرز کے ’’گیتوں‘‘ سے جان چُھڑالی جس کی وجہ نہ صرف نغموں کی ایک ہی ’’طرز‘‘ تھی بلکہ ’’بول‘‘ بھی کم و بیش آگے پیچھے کر کے وہی گائے جاتے کہ سننے والا بھی آخر کب تک نہ اُکتائے؟اِس کے بعد اُنہوں نےاپنے پرانے گیت مالا میں سے منتخب کلام’’دوسری کشتی ‘‘ والوں کو سنانےکی ہر ممکن کوشش کی مگر’’انکشافات‘‘ کی دیواریں گرنے کے بعد اُن کے ناقابلِ سماعت کلاموں کا پورا ذخیرہ قبضے میں لے کر اُنہیں’’عدم اعتماد‘‘کی پرچی تھماکر ’’شریفانہ انداز‘‘ میں اُن سے معذرت کرلی گئی یہاں تک کہ اُنہیں ’’اہم اجلاسوں‘‘ میں بُلانا تک چھوڑدیاگیالیکن ’’اختیار‘‘ کے مزے لگ جانے کے بعد انسان روداری اور وفاداری کی تمام سرحدیں عبور کرکے’’تم آگئے ہو نُور آگیا ہے ‘‘ جیسے قصائد نما نغمے گنگنا کر چاپلوسوں کی دنیا کا ایک ایسا اندھا مسافر بن جاتا ہے جسے جہاں بٹھادیاجائے وہ اُسی مقام کو غنیمت جانتا ہے کیونکہ مالِ غنیمت لُوٹے جانے کی تمام تر تفصیلات بھی ’’ہاتھ تھامنے ‘‘ والوں کےپاس محفوظ ہیں اور وہ جب چاہیں اُنہیںسامنے لا کر ’’سامنا‘‘ کرنے کے قابل ہی نہ چھوڑیں لہذااُن کیلئے بہتر تھا کہ وہ وقت گزرنے یا طوفان تھمنے کا انتظار کریںمگر کیا کیجئے کہ ’’اعتبار‘‘ کی تعمیر میں برسوں لگ جاتے ہیںلیکن ٹوٹنے میں ایک پل بھی نہیں لگتا بالکل اِسی طرح اب اِن پر کسی کو اعتبار ہے نا بھروسا،جو کبھی اِن سے ’’پیار‘‘ کیا کرتے تھے وہ تو اب اِنہیں نفرت کے قابل بھی نہیں سمجھتے اور جو اِنہیں دانش مندانہ فکر کا حامل گردانتے تھے وہ اب صرف ’’آئینی عہدے‘‘ کے احترام کا فرض نبھا رہے ہیںورنہ چھپا ہوا تو کچھ بھی نہیں ہے کمایا اور گنوایا سب ہی ظاہر ہے …اب اُس پر طرفہ تماشا یہ کہ ضبط و احترام کے تمام بندھنوں کو توڑ کر وہ اپنے ’’ترجمان‘‘ کے ذریعےحقائق کو جھٹلانے کی ایک ایسی بُری لت میں گرفتار ہوچکے ہیںکہ جس کا علاج ملک کے کسی بھی ’’نفسیاتی اسپتال‘‘ میں نہیں کیا جاسکتاماسوائے اِسکے کہ اِن سے جلد از جلد جان چھڑائی جائے …ایک ہی کمرےمیں 14سالہ قیدِ بے مشقت کاٹنے کے بعد کسی کی بھی یادداشت متاثر ہوسکتی ہے اور اِس میں کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے جب اِس طرح کی بیماری میں ملوث ایسا کوئی بھی فرد باآوازِ بلند حقائق کو جھٹلانے لگے اورقوم کو مزید Entertain کرنے کیلئے عجیب و غریب داستانیں سنانے لگے ، جس پر کبھی تو ہنسی آئے اور کبھی رحم …ظاہر ہے کہ ایک غیر محفوظ اور کُرسی چِھن جانے کے انجانے خوف میں مبتلاکبھی تو اُن مقدمات کو یاد کرتا ہوگاجومصلحتاً ’’دبائے‘‘ گئے ہیں ’’مِٹائے‘‘نہیں گئےِ کبھی تو اُن یادوں میں گُم ہوتا ہوگاجہاں وہ کلی اختیارات کے ساتھ محسنوں اور دوستوں دونوں ہی کو ہنس ہنس کر اطمینان دِلاتا تھا کہ ’’میں آپ کےساتھ ہوں‘‘اور پھر فون رکھنے کے بعد سگریٹ کا ایک کش لگا کر دِل ہی دِل میں مُسکرا کر کہتا ہو گاکہ ’’میں کسی کیساتھ نہیں صرف اپنے ساتھ ہوں‘‘ اور یہی وہ ذہنی عدم توازن ہے جو ’’دوستوں‘‘ کو بھی آہستہ آہستہ ’’دشمن‘‘ بناکر ’’اپنوں‘‘ کی تعداد کم کررہا ہے ،ٹھنڈے مزاج پر جھنجھلاہٹ نے قبضہ جماکر دلیل کو تمیز سے بیان کرنے کے تمام ہنر زنگ آلود کر کے ایسابے کار کردیاہے اب زبان اِس قدر عامیانہ ہوچکی ہے کہ درمیانہ راستہ نکالنے کا ماہر یہ Entertainerدرمیان ہی میں کہیںپھنس کر رہ گیاہے …پہلے اِنہیں سینےسے چمٹانے والے نے چھوڑا، پھر اِنہیں اُس عوامی حمایت نے خیر باد کہہ دیا جو اُن کیلئے کبھی تھی ہی نہیں بلکہ ایک شخص کے ’’اعتماد‘‘ نےاُنہیں سب کا ہر دل عزیز بنادیا تھااور اُس کے بعد اب اُنہوں نے بھی ہاتھ ملانے سے انکار کردیاہے جن سے وہ ’’کہتے ‘‘ کچھ تھے اور ’’کرتے ‘‘ کچھ تھے اور سمجھتے’’کچھ‘‘ تھے یعنی کبھی ’’پکڑے‘‘ نہیں جائینگے …پُل بنانے کا آسرا دے کر وہ PushاورPullکے کھیل میں ایسے مگن ہوئے کہ ’’کُل‘‘ اُن کیخلاف ہوگئے اور وہ دُھل کر بے نقاب ہوگئے …
اب Entertainerکیلئے بہتر تو یہی ہے کہ وہ بچی کچھی عزت کو بچانے کیلئے جہاں’’دولت‘‘ جمع کی ہے وہیں’’اِجازت لیکر‘‘روانہ ہوجائیں۔
اور باقی ماندہ زندگی ’’مانک چند‘‘ کھاتے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں میں اُڑادیں کیونکہ اب اُنہوں نے اُس ’’رازدار‘‘ دوست اور بھائی سے جنگ چھیڑ دی ہے جس نے ابھی تک تو استعاروں اور اشاروں سے کام لیا ہے لیکن اگر یہ سلسلہ رُکا نہیں تو سلسلہ ختم کیسے ہوگا وہ اُن کے ’’چھوٹے بھائی‘‘ کواچھی طرح آتا ہے …اِس کے علاوہ اُنہیں یہ بھی بھولنانہیں چاہئے کہ ’’ہم کسی کیلئے تب تک ضروری ہیں جب تک اُنہیں ہماری جگہ کوئی اور نہیں مل جاتا‘‘ویسے بھی لوگوں کی اصلیت بُرے وقت کے پردوں میں چھپی ہوتی ہے ،کل آپ نے کسی کو بُرے وقت میں چھوڑا تھا آج آپ کوکسی بھی وقت چھوڑا جاسکتاہے …یادہےنا کہ آپ نے اپنی زبان کو کسی کے عیبوں سے پراگندہ کیا تھا مگر شاید یہ فراموش کربیٹھے تھے کہ عیب آپ کے بھی ہیں اور زبانیں دوسروں کے پاس بھی ہیں …وہ دنیا کسی کو کیا ’’عشرت‘‘ دے گی جس دنیانے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفن تک نہ دیا ہو…بہرحال آپ سے صرف اِتنا ہی عرض کروں گا کہ ’’وقت سب کا آتا ہے مگر اِس وقت کے آنے میں تھوڑا وقت ضرور لگتا ہے ‘‘ …!!!!
تازہ ترین