• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد کون کنٹرول کرتا ہے، سپریم کورٹ، میرے خاندان کو زیربحث لایا جارہا ہے، چیف جسٹس

کراچی ( اسٹاف رپورٹر‘ایجنسیاں)سپریم کور ٹ کے لارجر بینچ نے کراچی بدامنی عمل درآمد اور اویس علی شاہ اغوا کیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اپنی آبزرویشن میںقرار دیا ہے کہ عدالت جاننا چاہتی ہےکہ سوشل میڈیاپر قابل اعتراض موادکون کنٹرول کرتا ہے ‘عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے اورچیئرمین پی ٹی اے استفسارکیاکہ کس قانون نے انہیں روک رکھاہے کہ اگرعدلیہ کیخلاف مہم چلائی جارہی ہوتو ازخودکارروائی نہ کریں‘اٹارنی جنرل اس معاملے کو سنجیدہ لیں‘جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ  اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلانے والوں کے پس پردہ عناصر کون ہیں‘ ان کا منبع کیا ہےاور کہاں سے چلائی جار ہی ہےپی ٹی اے ، ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ ادارے کھوج لگائیں تاکہ انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے‘عدالت عظمیٰ نے دوہفتوں میں جیوفینسنگ ‘ لوکیٹرسسٹم اورموبائل فون ڈیٹاتک رسائی کا مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کردی جبکہ چیئرمین پی ٹی اے کا کہناتھا کہ سوشل میڈیاپر موادکو روکنے کا ان کے پاس کوئی نظام نہیں‘ دریں اثناءسپریم کورٹ نے عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مدد گار 15کو کراچی پولیس کے ماتحت کرنے کی ہدایت کر دی ۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربر اہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم ، جسٹس مشیر عالم ، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 5رکنی لارجر بنچ نے جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی بد امنی عمل درآمد کیس اور اویس علی شاہ کے اغوا سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی ۔دوران سماعت جب عدالت نے اعلی عدلیہ کے ججز اور ان کے اہل خانہ کے خلاف سوشل اور الیکٹرونک میڈیا پر پروپیگنڈہ مہم چلانے سے متعلق معاملے کو اٹھا یا تو چیف جسٹس نے اپنے آپ کو بنچ سے الگ کرتے ہوئے قرار دیا کہ چونکہ ان کے خاندان کو زیربحث لایاجارہاہے اور وہ اس معاملے میں فریق ہیں لہذا وہ مناسب نہیں سمجھتے کہ وہ اس کیس کو سنیں ، جس کے بعد جسٹس امیرہانی مسلم کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بینچ نے ججز کے خلاف مہم کے معاملے کی سماعت کی ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیئرمین پی ٹی اے سے استفسار کیا کہ ایک عام شخص کو بھی معلوم ہے کہ 2،3ماہ سے سوشل میڈیا پر اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی جا رہی ہے کیا آپ اس سے با خبر نہیں ‘ چیئرمین پی ٹی اے نے عدالت کوبتایا کہ عدالتی احکامات کے بعد انہوں نے اس حوالے سے کام شروع کر دیا ہے اور مہم سے متعلق مواد کو مانیٹر کیا جا رہا ہے تاہم سوشل میڈیا پر چلنے والے مواد کو روکنے سے متعلق ان کے پاس کوئی نظام موجود نہیں ہے جبکہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان اداروں کے پاس ایساکوئی میکنزم موجود نہیںہے کہ خود کار نظام کے ذریعے معلومات حاصل کی جا سکیں ‘پی ٹی اے چیئرمین نے بتایا کہ اس وقت اربوں ایپ کام کر رہی ہیں جس کا سرور بیرون ملک ہوتا ہے، جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت جاننا چاہتی ہےکہ اس کے پس پردہ کون سے عناصر ہیں اور ان کا منبع کیا ہے تاکہ انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمار کس دیے کہ اگر کوئی ایسی سرگرمی کو امریکا سے پاکستان میں ہو رہی ہو اور وہ پاکستان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہو تو پاکستان اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ، شاہد حیات نے بتایا کہ فیس بک کے پاکستان میں کوئی لینڈنگ رائٹس نہیں ہیں ‘ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر ایک ایپ کا ہیڈ آفس امریکا میں ہے تو کیا ایک آزاد ملک کے اہم ستون کے خلاف مہم چلانے کی اجازت دی جا سکتی ہے‘ اگر کسی ایپ کی وجہ سے ملک کو کوئی نقصان ہور ہا ہو تو اسے بند بھی کیا جا سکتا ہے‘ ٹی وی چینلز پر ججز کی تضحیک سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر ججز اوران کےاہل خانہ سے متعلق تبصرے ہو رہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے جب پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں تو چینلز کس قانون کے تحت یہ کر رہے ہیں جس پر چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہا کہ ہم بار بار ایکشن لیتے ہیںمگرحکم امتناعی آڑے آجاتاہے‘ اسلام آباد اور خود سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے حتمی کارروائی نہیں کر پاتے‘ جب عدالتیں پیمرا کے فیصلوں پر حکم امتناعی جاری کرتی ہیںتو پیمرا کے فیصلے مذاق بن کر رہ جاتے ہیں ‘ عدالت نے قرار دیاکہ چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی کہ وہ ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات خصوصا حکم امتناعی کے مقدمات کی فہرست فراہم کریں ‘دریں اثنا دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور جسٹس امیر ہانی مسلم کے استفسار پربتایا کہ جیو فینسنگ سے متعلق پنجاب حکومت کو بھی سہولت حاصل نہیں ہے اور اگر سندھ پولیس تھری جی اور فورجی لوکیٹر ز کو اپ گریڈ کرنا چاہتی ہے تو وفاقی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے ‘جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ سندھ پولیس کا موقف ہے کہ انہیں موبائل فون کمپنیوں کے ڈیٹا تک رسائی دی جائے جو کہ تفتیش کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس سے متعلق وہ عدالت کو چیمبرز میں تفصیلات بتا سکتے ہیں‘جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمار کس دیے کہ کیا آپ کو لوکل ادارے پر اعتبار نہیں کہ آپ ٹیکنالوجی تک انہیں رسائی نہیں دے رہے ‘آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سیلولر کمپنیاں پولیس کو ڈیٹا فراہم نہیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے تفتیش میں مشکلات کا سامنا ہے ‘عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی کہ 2ہفتوں میں جیوفینسنگ،لوکیٹر سسٹم ،ڈیٹا تک رسائی کے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔جسٹس خلجی عارف حسین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمار کس دیے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کے ادارے ایک دوسرے کی جانب انگلیاں اٹھا رہے ہیں‘ چیف جسٹس نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے الزام تراشی کا کھیل بند ہو نا چاہیے‘دوران سماعت چیف سیکرٹری سندھ محمد صدیق میمن نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ پے رول کمیٹی کی انکوائری کمیٹی کی مدت پوری نہیں ہوئی ، وقت پورا ہونے پر رپورٹ پیش کر دی جائے گی ، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ کمیٹی یہ بھی جائزہ لے کہ سندھ کی جیلوں سے کتنے ملزمان غائب ہوئے ‘ آئند ہ سماعت پر جامع رپورٹ پیش کی جائے ۔ دریں اثنا اویس علی شاہ اغوا کیس میں غفلت برتنے کے معاملے پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ 24پولیس افسران کے خلاف انکوائری جی آئی جی منیر شیخ کر رہے ہیں اور ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کر دی جائے گی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ان افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جو ذمہ دار ہیں اور مددگار 15کے اختیا رات ایس ایس یو کو کیوں دیے گئے ہیں یہ ایک ٹیکنیکل شعبہ ہے ۔عدالتی استفسار پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ پولیس میں 4سالوں کےدوران 4ہزار جبکہ 2015اور 2016میں دس ، دس ہزار اسامیوں کی منظور ی دی گئی ہے تاہم بھرتیوں کا معاملہ الیکشن کے باعث پابندی لگنے کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے جس پر عدالت نے چیف سیکرٹری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھریتوں کا الیکشن سے کیا تعلق ،چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس میں میرٹ اور شفافیت کی بنا پر بھرتیاں ہوئی چاہیں تاکہ بہتر لوگ سامنے آسکیں ، دریں اثنا سپریم کورٹ نے عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے مدد گار 15کو کراچی پولیس کے ماتحت کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور چیف سیکرٹری کو فوری طور پر نوٹی فکیشن جاری کر نے کا حکم دے دیا ہے ۔
تازہ ترین