• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوں جوں عید قریب آرہی ہے ہمیں اپنے محلے کے چوہدریوں،ملکوں، خانوں، گردیزیوں، قریشیوں، گیلانیوں اور میروں وغیرہ پر رشک آنا شروع ہوگیا ہے۔ کیونکہ ان سب نے بکرے خرید لئے ہیں، بکرے کیا خرید لئے ہیں، بس یوں سمجھیں کہ جنت میں گھر خرید لیا ہے، جب کہ ہم جیسے رمضانی جنت میں گھر خریدنے کے لئے ابھی تک بیانے کا انتظام بھی نہیں کرسکے۔ ہم سب رمضانی بھی بہشتی دروازے سے گزرنا چاہتے ہیں، مگر ہمیں کوئی گزرنے ہی نہیں دیتا۔ ویسے میں گزشتہ کئی دنوں سے راہ چلتے بکروں کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے میں مشغول ہوں، کوئی اجنبی دیکھے تو اس کام میں میری مہارت اور اعتماد دیکھ کر یہی سمجھے کہ میں ابھی ’’کھڑے کھلوتے‘‘ پورا ریوڑ خرید لوں گا۔ حالانکہ جس ریوڑ کے ہم لوگ خود ’’پہاڑو‘‘ ہیں اس کی قوت خرید اتنی کم ہے کہ انہیں دیکھ کر دوسروں کی قوت خرید خواہ مخواہ بیدار ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ روز تو ایک نک چڑھے اور بدلحاظ قسم کے بکرے نے بیچ بازار مجھے جھاڑ پلا دی۔ کہنے لگا ’’یہ تم کیا اتنی دیر سے مجھے ٹٹول ٹٹول کے دیکھ رہے ہو، کیا تم نے اپنی جیب ٹٹول کر دیکھی ہے؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر جیب پر ہاتھ مارا اور کہا ’’اوہو میری جیب کٹ گئی ہے‘‘اس پر بکرا بڑی زہریلی ہنسی ہنسا اور بولا ’’تمہاری جیب کاٹ کر کسی نے کیا لینا ہے۔ جائو میاں اپنی راہ لو۔ جیسے ہم ہیں ویسے تم ہو۔ خواہ مخواہ ہمیں ٹٹول ٹٹول کر اپنے ٹہور بنانے کی کوشش کررہے ہو‘‘۔ اس پر میں نے کھسیانے ہو کر منت سماجت کے لئے اس کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگایا اور ابھی کچھ کہنے ہی کو تھا کہ اس بدذات نے میرا ہاتھ جھٹک کر کہا ’’اب تم میرے دانت بھی دیکھنا چاہتے ہو، پورے دو دانت ہیں میرے منہ میں۔ اگر تمہاری طرح میرے منہ میں بتیس دانت ہوتے تو میں دیکھتا کہ کون مائی کا لال مجھے قربانی کا بکرا سمجھتا ہے‘‘۔ پیشتر اس کے میں عزت بچانے کے لئے وہاں سے راہ فرار اختیار کرتا، ایک کالے بکرے نے پیچھے سے آکر ’’ٹڈھ‘‘ مارا۔ ایک تو قربانی کا بکرا اور اوپر سے کالا، چنانچہ مجھے دہرا غصہ آیا، مگر خاموش رہا کہ اس کے سینگ بھی تھے۔ میری اس خاموشی کو اس نے نیم رضا مندی سمجھ کر ایک ’’ٹڈھ‘‘ اور مارا اور کہا ’’ایک دو باتیں میں نے بھی تم سے کرنی ہے!‘‘ میں نے بے بسی سے کہا ’’بھائی صاحب! آپ بھی کرلیں‘‘ اس کلوٹے نے لال لال آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا ’’جنوبی افریقہ میں سیاہ فام باشندوں پر جو مظالم ہوتے رہے ہیں ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ میں نے اس کے سینگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’مائی باپ! ہم اس کی سخت مذمت کرتے رہے ہیں!‘‘ اس پر اس نے ایک دفعہ پھر مجھے ہلکی سی زک پہنچائی اور کہا ’’اور جو سلوک تم لوگ ہمارے ساتھ کرتے ہو، وہ بھول گئے ہو، تم میں سے کسی کو چھینک آجائے تو کالے بکرے کا صدقہ، سفر پر روانہ ہونے لگے تو کالے بکرے کا صدقہ، سفر سے واپس آئے تو کالے بکرے کا صدقہ، کوئی جادو ٹونا کرنا ہو تو ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہو یعنی کالا بکرا ذبح کر کے اس کی گردن کسی چوک میں رکھ جاتے ہو اور اوپر سے تم بڑے ہمدرد بنتے ہو؟‘‘ میں نے اس بے ہودہ بکرے کے توہین آمیز طرز عمل کو اس کے سینگوں کے صدقے میں نظر انداز کرتے ہوئے لجاجت سے کہا ’’بھائی صاحب آپ دیکھیں کہ ہم لوگ کالے دھن کے پیچھے کس طرح پھرتے ہیں اور تو اور ہم تو جوتے بھی کالے رنگ ہی کے پہننا پسند کرتے ہیں بلکہ نائلون کے سیاہ رنگ کے زیر جامے ......، مگر اس کلوٹے گستاخ بکرے نے درمیان ہی میں ٹوک دیا اور کہا ’’اب تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو میں تم سے سمجھ لوں گا!‘‘ یہ سن کر میرے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ گئے چنانچہ میں نے سارے ادب آداب ایک طرف رکھے اور کہا ’’اوئے کالے! میں بہت دیر سے تمہاری بک بک سن رہا ہوں۔ تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو۔ اگر تم اتنے ہی انا پرست ہو تو سینگوں کی موجودگی میں پورے ریوڑ کے ساتھ گردن نہیوڑا کر کیوں چلتے ہو، قصاب کے ہاتھ میں چھری بعد میں آتی ہے، تم اس کے سامنے گردن پہلے خم کردیتے ہو۔ ان سینگوں سے تم زیاہ سے زیادہ کمر کھجانے کا کام لیتے ہو اور یا پھر ہم جیسوں کو بلاوجہ ’’ٹڈھ‘‘ ما کر سمجھتے ہو کہ تم بڑے پھنے خان ہو .... اوئے سینگوں سے کمر کھجانے اوراپنے جیسوں کو ’’ٹڈھ‘‘ مار کر خوش ہونے والے دو کوڑی کے جانور، اپنی اوقات میں رہ، ورنہ جیسے تیسے بھی ہوا، تجھے کھڑے کھڑے خرید لوں گا!‘‘ خیر، کیا خریدنا تھا، اتنے میں ریوڑ کے مالک نے اسے کانوں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے ایک چوہدری صاحب کے سامنے جا کھڑا کیا۔
خیر، بکروں کے ساتھ ہونیوالے یہ مکالمے اپنی جگہ، اور وہ مسئلہ اپنی جگہ کہ ہم ایسے رمضانی ابھی تک بکروں کو محض ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے میں مشغول ہیں، بلکہ ہمیں تو لگتا ہے کہ عید آکر گزر بھی جانی ہے اور ہمارا یہ شغل جاری رہنا ہے۔ بکروں کے ساتھ ہونے والے مکالمے اوپر کی سطور میں اس لئے بھی درج کئے ہیں کہ ہم جیسے تیسے بھی ہیں بہرحال انسانوں کی برادری میں شامل ہیں اور یوں بکروں سے بہرصورت بہتر ہیں۔ چنانچہ وہ جو ہم ایسے انسانوں میں اشرف المخلوقات قسم کے انسان ہیں، یعنی بکروں کے ریوڑ کے ریوڑ خریدنے کی پوزیشن میں ہیں، ہمیں بکروں کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے بچائیں اور کچھ ایسا انتظام کریں کہ آئندہ کسی بکرے کو ان اشرف المخلوقات انسانوں کے کمی کمینوں سے بھی اس قسم کی گفتگو کرنے کی ہمت نہ پڑے۔ ان ضمن میں میری تجویز یہ ہے کہ ہر سال عید کے موقع پر ہمیں بکرا الائونس دیا جائے تاکہ ہم بھی بازار میں جائیں اور ان گستاخ بکروں میں سے کسی کو کانوں سےکھینچتے ہوئے اپنے گھر کے دروازے پر لا کر باندھ دیں۔ عید کے روز ان کے سری پائے بھون کر کھائیں، ان کے تکا بوٹی کر کے محلے میں تقسیم کریں، ان کی اوجڑی باہر گلی میں پھینک دیں اور ان کی کھالیں کھنچوا کر کسی خیراتی ادارے کو بھجوا دیں۔ چنانچہ ہمارے اشرف المخلوقات قسم کے انسان اگرہمیں بھی چھوٹا موٹا انسان سمجھتے ہیں تو براہ کرم ہمیں جلد از جلد بکرا الائونس دلوائیں کہ عید قریب آرہی ہے اور اگر ہم بھی انسان نہیں، ان کی نظروں میں بکرے ہی ہیں، تو پھر ہمیں مہنگائی الائونس دیا جائے جس سے ہم اپنا معیار زندگی بلند کر سکیں تاکہ کم از کم یہ ٹکے ٹکے کے بکرے ہمیں سر عام ’’ٹڈھ‘‘ مار کر ذلیل تو نہ کریں۔


.
تازہ ترین