• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک خصوصی اجلاس میں 188ممالک کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ان ممالک نے اپنے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے کیا ترقی کی ہے اور کونسے اہداف و مقاصد ایسے ہیں جن کو حاصل کرنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ اس تجزیاتی مطالبے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمومی طور پر صحت کی سہولتوں کا دائرہ وسیع کرنے، فیملی پلاننگ کے پروگرام کو موثر بنانے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح میں کمی کا ہدف حاصل کرنے میں تو کامیابی ہوئی ہے لیکن ہیپا ٹائٹس بی، بچپن کے موٹاپے، تشدد کو روکنے اور الکوحل کے استعمال کی صورتحال خراب تر پائی گئی ہے۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ نے مختلف ممالک کی جو درجہ بندی کی ہے اس میں آئس لینڈ کو سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔ برطانیہ اور کینیڈا رینکنگ کے اعتبار سے ٹاپ ٹین میں آئے۔ افغانستان اور وسطی افریقی ریاستیں سب سے نچلے درجے پر آئی ہیں جبکہ وطن عزیز پاکستان 188ممالک میں ایک سو انچاسویں نمبر پر قرار دیا گیا ہے جسے کسی بھی طرح قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سے یہ بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا موجودہ حکمرانوں سمیت کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیںرہا۔ دور دراز شہروں اور قصبات میں تو درکنار کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین مریض لٹائے جاتے ہیں۔ کئی ہسپتالوں میں ایم آئی آر اور سی ٹی سکین مشینوں کی عدم موجودگی یا اکثر خراب ہو جانے کا مسئلہ بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہی وہ ناگفتہ بہ صورتحال ہے جس میں امرا تو معمول کے مرض کا علاج کرانے کے لئے بھی بیرون ملک سدھار جاتے ہیں جبکہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں کم از کم اتنی سہولتیں تو عوام کو دی جائیں کہ وہ ٹاپ ٹین میں نہ سہی ٹاپ ففٹی میں تو آ جائیں۔

.
تازہ ترین