• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خاں میںوزیر اعظم صحت کارڈ کے اجراء کی تقریب سے خطاب میں بتایا کہ یہ کارڈ ایسے کم آمدنی والے شہریوں کو جاری کیا جائے گا جو معیاری علاج کے وسائل نہیں رکھتے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کيلئے بھرپور اقدامات کررہی ہے ،ملک بھر میں پچاس نئے اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں تاکہ غریب کو علاج معالجے کيلئے اپنا گھر نہ بیچنا پڑے۔انہوںنے رحیم یار خاں میں بھی قومی صحت پروگرام شروع ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اس سلسلے کا آغاز گزشتہ دسمبر کی آخری تاریخ کوہوا تھا جس کے بعد یہ اسلام آباد، ، کوئٹہ، مظفرآباد، اسکردو اور کوٹلی سمیت کئی اضلاع میں شروع ہوچکا ہے اور بتدریج پورے ملک پھیل رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت نادار مریضوں کے علاج۔ ضرورت کے مطابق تین لاکھ روپے تک اسپتالوں کو ادا کیے جائیں گے اور اس سے زیادہ اخراجات کی صورت میں بیت المال سے رقم فراہم کی جائے گی۔وزیر اعظم کے مطابق رحیم یار خاں میں اس پروگرام کے تحت ڈھائی لاکھ خاندان رجسٹر کیے جارہے ہیں جبکہ دیگر اضلاع کے تین لاکھ نوے ہزار خاندان اس فہرست میں شامل ہوچکے ہیں اور لورالائی، خانیوال اور لسبیلہ میں انرولمنٹ کا کام جاری ہے۔وزیر اعظم نے بجاطور پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ عوامی بہبود کے پروگراموں کو حکومتوں کے آنے جانے سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ بلاشبہ اس بات کا اہتمام بہت ضروری ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود ملک وقوم اور عوام کی بہتری کے منصوبوں کو ختم نہ کیا جائے۔ نئی حکومتوں کيلئے ممکن ہو تو انہیں مزید مفید ضروربنائیں لیکن کسی جواز کے بغیر بند ہرگز نہ کریں۔ملک بھر میں غریب مریضوں کے مکمل طور پر مفت علاج کا یہ پروگرام جسے وزیر اعظم صحت کارڈ کا نام دیا گیا ہے، کروڑوں غریب پاکستانیوں کيلئے یقینا ًامید کا پیغام ہے۔ تاہم صحت کے شعبے کے دوسرے کئی پہلو بھی ارباب اختیار کی فوری توجہ کے طالب ہیں۔ اس حوالے سے ملک میں ادویات کی صورت حال سے متعلق ایک تازہ ترین رپورٹ کا متعلقہ وزارتوں اور حکام سمیت خود وزیر اعظم کو بلاتاخیر نوٹس لیناچاہئے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ ملک میں ادویات کے نام پر زہر بک رہا ہے، اس کی روک تھام کيلئے کوئی ڈرگ پالیسی ہے نہ ریگولیٹری اتھارٹی ‘‘ یہ الفاظ کسی اور کے نہیں خود اس معاملے سے براہ راست متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ و انسداد منشیات کے چیئرمین رحمان ملک کے ہیں۔جمعہ کوکمیٹی کے اجلاس میں صحت عامہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کوئی ہیلتھ پالیسی اور انضباطی ادارہ موجود نہیں چنانچہ کوئی بھی کسی بھی قسم کی دوا دکاندار سے لے سکتا ہے،انتقال خون پر کوئی چیک نہیں جس کی وجہ سے غیر معیاری اور غیرمحفوظ خون کی منتقلی عام ہے۔ انہوں نے جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کی بندش کيلئے سخت قوانین اور قومی تقاضوں کے مطابق ہیلتھ پالیسی کی تشکیل پر زور دیا۔ بلاشبہ اس ضمن میں قانون سازی کيلئے حکومت کی جانب سے جلد از جلد ضروری اقدامات ناگزیر ہیں۔ صحت کی سہولتوں کے حوالے سے لائق ڈاکٹروں کی کمیابی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اکیس سو افراد کيلئے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے جبکہ طبی تعلیم کے بیشتر اداروں کا معیار تدریس بہت پست ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے سواسو کے لگ بھگ میڈیکل تعلیمی اداروں میں سے بمشکل دس ادارے معیاری تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں خواتین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن ان کی بھاری اکثریت شادی کے بعد پریکٹس نہیں کرتی جو ملک میں ڈاکٹروں کی قلت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ان تمام پہلوؤں کی اصلاح کيلئے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ایک جامع ہیلتھ پالیسی کی تیاری اور نفاذ ضروری ہے اور وزیر اعظم کو خود اس جانب فوری توجہ دینی چاہئے۔ نیز وزیر اعظم صحت کارڈ پروگرام میں کرپشن کے عمل دخل کو ناممکن بنانے کيلئے شفافیت کا مکمل بندوبست کیا جانا چاہئے۔

.
تازہ ترین