• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ،پانامہ لیکس پردرخواستوں کی سماعت، دھرنے کا کوئی جواز نہیں

اسلام آباد(طاہر خلیل) خان صاحب یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں کہ سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت شروع کردی ہے۔ اس لئے دھرنے کا کوئی جواز نہیں رہااس کے بجائے ان کا ہر دن احتجاج، دھرنے اورمظاہرے کو پرجوش بنانے پر صرف ہورہا ہے وہ احتجاج کو بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ ایسےلگتا ہے کہ خان صاحب کے ساتھ پی پی پی بھی ان کا یکساں ہدف بنی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے حلقے سے خان صاحب کا فتوی سامنے آیا ہے کہ احتجاج سے روکنے والے اپوزیشن رہنما خود کرپٹ ہیں۔تشدد اور زور زبردستی کی گئی تو نقصان حکومت کا ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کررکھا ہے اوروہ بتدریج پارلیمانی سیاست میں دستکش ہوکر سڑکوں پر آرہی ہے اور اب ان کا یہ اعلان کسی دھماکے سےکم نہیں کہ وہ وزیراعظم کو نہیں مانتے، کوئی بالغ نظر اور غیر جانبدار مبصر اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ سپیکر کامعاملہ ہو یا وزیراعظم کا،ان کا انتخاب آئین کے تقاضے مکمل کرکے عمل میں لایاگیا تھا۔ اگر عمران خان پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت تسلیم نہیں کرتے تو سوال یہ ہے کہ پاکستا ن تحریک انصاف کے اراکین ہر ماہ پارلیمنٹ سے لاکھوں روپے کی تنخواہیں اور دوسری مالی مراعات کیوں وصول کررہے ہیں؟ عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج اور دھرنے کی کال دے رکھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد کو بند کرنے کےلئے تحریک انصاف نے 9مقامات پر سڑکیں بند کرنے کا فیصلہ کیاہے جبکہ حکومت ڈٹی ہوئی ہے کہ کسی کواسلام آباد بند نہیں کرنے دیں گے۔اس معاملے میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پی پی پی عمران خان کی جانب سے 2 نومبر کو اسلام آباد اورحکومتی مشینری کو مفلوج کرنے کی دھمکی کوغیر قانونی عمل قرار دے رہی ہے۔ سیاسی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے، عمران خان اور وزیراعظم دونوں پاکستان کو تبدیل کرنے کے دعویدار ہیں۔ حکمران مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے مابین سیاسی محاذ آرائی کے اس ماحول میں جماعت اسلامی نے نوشہرہ میں ایک بڑا اجتماع منعقد کرکے حالات کو نیا رخ دےدیا ہے۔ اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت اسلامی قومی سیاست کا اہم حصہ ہے۔ تبدیلی کے اس شور میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق قوم کو نوید دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تبدیلی کے لئے فضا تیار ہے۔ قوم انقلاب کی تیاری کرے اورجماعت اسلامی اسلام نافذ کرکے پاکستان کو تبدیل کردے گی۔ عمران خان اور سراج الحق کاایک اوریکساں ہدف نیب ہے۔ جس کی کارکردگی پر دونوں جماعتیں نکتہ چیں ہیں۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ نیب میں اصلاحات لانے کےلئے پارلیمان میں ایک بل پہلے سے زیر غور ہے اور دونوں جماعتیں پارلیمانی کمیٹی کا حصہ ہیں جو نیب میں اصلاحات کےلئے کام کررہی ہے۔ تاہم امیر جماعت اسلامی نے پاکستانی سیاست میں جن خامیوں اورکمزوریوں کی نشاندہی کی ہے انہیں دور کرنےکےلئے انتخابی اصلاحات کمیٹی اوردیگر اداروں کو توجہ دینی چاہیے، یہ درست ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کے حالات مخدوش ہیں لیکن صدر اور وزیراعظم کی سکیورٹی کےلئے کروڑوں روپے کے اخراجات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت کو چلانے کےلئے قومی تنصیبات گروی رکھ کر ہمیں بار بار سکوک بانڈز کا اجرا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ امیر جماعت اسلامی کے بیان پر توجہ دی جائے اوراداروں کی انتظامی صلاحیتوں میں ایسا نکھار پیدا کیا جائے کہ ان پر عوام کااعتماد بحال ہو اور حکومت کے انتظامی اخراجات میں قابل ذکر کمی آسکے۔ حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات اورغریب عوام کی کسمپرسی اور ان کی بڑھتی ہوئی محرومیوں نے جو فاصلے قائم کئے ہیں ان کا ازالہ ہونا چاہیے۔ 
تازہ ترین