• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی حکومت کے تین ادوار ... تحریر:سید محمد علی عابد…برمنگھم

میاں صاحب کا پہلا دور نومبر 1990سے جولائی1993 تک دو سال سات ماہ کے عرصے پر محیط رہا۔ ان کی حکومت سے پہلے معیشت سوشلسٹ کمیونسٹ طرز پر چل رہی تھی اور قدم قدم پر پابندیاں تھیں، حکومت ہر چیز کی مالک تھی۔ مثل مشہور ہے کہ طاقت کرپشن کا سبب بنتی ہے اور مکمل طاقت مکمل کرپشن کو جنم دیتی ہے۔ برطانیہ میں 1970کی دہائی میں ہر ادارہ تباہی سے دوچار تھا۔ مسز تھیچر نے1979 میں حکومت سنبھالتے ہی یوٹیلٹی کے تمام ادارے نجی ملکیت میں دے دیئے اس کے سبب معیشت تیزی سے ترقی کرنے لگی صارفین کو بہتر سستی اشیاء اور خدمات حاصل ہونے لگیں، خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت بھی سرکاری اداروں کو نجی شعبے میں دینے کی پالیسی کے ساتھ آئی تھی۔ عوام میں جوش و خروش تھا، نئی انڈسٹری اور نئے کاروبار دھڑا دھڑ وجود میں آنے لگے۔ ان کے دونوں ادوار میں ایکسچینج پر کنٹرول ختم ہوا جس سے کاروباری لین دین میں آسانی آئی۔ بنک جو کرپشن کا اڈا بنے ہوئے تھے اور سیاسی لوگوں کو یا ان کی پراکسی کو بڑے بڑے قرض دیتے تھے جو بعد میں معاف کروا لئے جاتے تھے بنک خسارے میں چل رہے تھے۔ یونائیٹڈ بنک کا ایک سال کا خسارہ بائیس ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ مسلم کمرشل بنک Insolvacyکے دہانے پر تھا بنک آف انگلینڈ نے اس کا برطانیہ میں بینکنگ کرنے کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا جس کی وجہ سے برطانیہ میں اس کی برانچیں بند ہو گئی تھیں۔ بنکوں کی عمارتیں بوسیدہ ہوتی تھیں زمانہ حاضر کی سہولتیں نایاب تھیں۔ میاں نواز شریف نے اس ادارے کو نجی تحویل میں دے دیا جس کی وجہ سے آج ہماری بنکنگ انڈسٹری دنیا بھر کی انڈسٹری کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ سیمنٹ انڈسٹری نجی تحویل میں آنے سے بنکوں کی انڈسٹری کی طرح کرپشن اور رشوت سے پاک ہو گئی۔ یہی حال ٹیلی کمیونیکیشن کا ہوا یہاں بھی عوام کو جلد سروس ملنے لگی اور کرپشن اور رشوت کا خاتمہ ہوا۔ چونگی اور ضلع ٹیکس جو عوام کیلئے پریشانیوں کا باعث تھے رشوت اور کرپشن کا گڑھ تھے ختم کر دیئے گئے۔ ائرپورٹس پر ریڈ اینڈ گرین چینل بنا کر مسافروں کو سہولت دی گئی۔ پچھلے دونوں حکومتی ادوار میں ترقی اور آسانیاں پیدا کی گئیں جس کی وجہ سے عوام نے میاں صاحب سے دلی محبت کی اور تیسری بار ان کو دو تہائی اکثریت سے منتخب کیا تاکہ وہ اپنے ادھورے پروگرام پورے کر سکیں۔
میاں نواز شریف کی دس برس کی جلاوطنی اور پردیس نے ان کی سوچ میں گہرائی اور تجربات میں اضافہ کیا اور اب وہ سیاست دان سے مدبر بن گئے اس دور میں وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اور پرانی غلطیوں سے چھٹکارہ حاصل کر رہے ہیں۔ موصوف بڑے برے طویل المیعاد منصوبوں میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ انہوں نے اپنے ادھورے کاموں کی طرف توجہ دینا بے حد کم کر دیا جو عوام میں مایوسی کا سبب بن رہا ہے ان کے اپنے چاہنے والے حیران ہیں کہ میاں صاحب کو کیا ہوگیا ہے چھوٹے کام عوام کو براہ راست فائدہ پہنچا کر ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں ان کاموں سے تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے عوام توقع کرتے ہیں کہ وہ تھوڑا وقت اپنے ادھورے پروگرام کی تکمیل کے لئے بھی نکالیں۔ بجلی اور گیس کے تقسیم کار ادارے عوام کے لئے پریشانیوں اور تکالیف کا باعث ہیں یہاں رشوت اور کرپشن کا راج ہے عوام پچھلے اٹھارہ سال سے ان کی نجکاری کے منتظر تھے آپ کی حکومت آتے ہی انہیں توقع ہوگئی تھی کہ آپ اپنے منشور اور پارٹی کی پالیسی کے مطابق ان اداروں کو فوری نجی تحویل میں دے کر عوام پر احسان عظیم فرمائیں گے۔ عوام چھوٹی چھوٹی مہربانیوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے بجلی اور گیس کی نجکاری اکنامک کوریڈور سے زیادہ خوشی کا سبب بنے گی۔ اکنامک کوریڈور کے فوائد عوام کو بلواسطہ میسر آئیں گے لیکن بجلی اور گیس کی نجکاری انہیں بلاواسطہ کرپشن اور رشوت سے آزادی دلوائے گی۔ ان کی زندگیوں میں سہولت آنے لگے گی اور معیار زندگی بہتر ہوگا۔ ہم اس کی مثال یوں دیں گے کہ ایک کنبے کے بچے بھوکے ہیں گھر میں کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں بچوں کو بھوکا سلانے کے لئے ایک عقلمند ماں ہنڈیا میں اینٹ روڑے ڈال کر چولہے پر چڑھا دیتی ہے گھر میں کہیں پڑے بھنے ہوئے چنے بچوں کو دے دیتی ہے بچے چنے کھاتے کھاتے اس امید سے سو جاتے ہیں کہ انہیں کھانے کے لئے کچھ ملنے والا ہے۔ وزیراعظم عوام کے لئے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جو یقیناً خوشحالی لائیں گے اور پاکستان کا مقدر بدل جائے گا۔ لیکن ان کی تکمیل میں وقت لگے گا بچوں کی طرح عوام کو تھوڑی بہت خوراک بھی دیتے رہیں تاکہ وہ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے وقتی طور پر سہی مطمئن ہو جائیں کہ ترقی ہو رہی ہے۔ پی آئی اے اور سٹیل ملز اپنے لوگوں کو فروخت کر دیں اور شیئرز کی قیمت انتہائی مناسب رکھیں تاکہ عوام انہیں خریدنے پر تیار ہوجائیں۔ وزیراعظم خود خاندانی کاروباری ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کی کیا قیمت ہوتی ہے یہ اثاثہ Assetنہیں بلکہ ذمہ داری Laibilityہوتے ہیں اس کام میں جتنی دیر ہوگی خسارہ بڑھتا رہے گا اور معیشت کو تباہ کرتا رہے گا۔ ان اداروں کے حصص صوبوں میں سائز یا آبادی کی نسبت سے تمام عوام میں فروخت کریں تاکہ کسی شخص کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ راقم کو یاد ہے کہ جب مسلم کمرشل بنک کی نجکاری ہوئی اور اس خسارے میں چلنے والے بنک کو چلانے کی ذمہ داری کا رسک میاں منشا نے اٹھایا تو اپوزیشن پارٹیوں نے طوفان کھڑا کر دیا تھا کہ میاں نواز نے یہ بنک نہایت کم قیمت پر پردے دیا ہے۔ راقم کے بہنوئی کالج میں لیکچرر تھے اور ان کا مضمون اکنامکس تھا لیکن تھے جیالے مجھے ملے اور بڑے غصے میں فرمانے لگے کہ دیکھیں میاں نواز شریف نے مسلم کمرشل بنک کوڑیوں کے بھائو فروخت کرکے قومی خزانے کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ راقم نے عرض کی کہ جناب آپ نے بنک کی بیلنس شیٹ دیکھی ہے۔ فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا کہ آپ ماسٹر کی ڈگری لئے ہوئے ہیں اور بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ لیکن آپ بغیر بیلنس شیٹ کا ملاحظہ کئے یہ دعویٰ کیسے اور کس بنیاد پر کر رہے ہیں کہ یہ ادارہ نہایت کم قیمت پر دے کر میاں صاحب پر سرکاری خزانے کا نقصان کرنے کا بے بنیاد الزام لگا رہے ہیں۔ موصوف خاموش ہو گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے میاں نواز شریف نے اب بڑے بڑے پراجیکٹس شروع کئے ہوئے ہیں۔ جو شاید ڈیڑھ یا دو سال میں یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں مکمل ہوں گے۔ قلیل مدت کے عوام کے بلاواسطہ فائدے کے کام جو فوری طور پر ہوسکتے ہیں کروا دیں عوام خوش ہوں گے اور ان کی مایوسی ختم ہوجائے گی ان کاموں میں کورٹ فیس کے طور پر لگائے جانے والے دو روپے کے ٹکٹ کی ضرورت ختم کر دیں اس سے حکومت کی آمدنی پر معمولی اثر پڑے گا جو قابل برداشت ہے اس کا فائدہ اس سے ملنے والی آمدنی سے کہیں زیادہ عوام کیلئے بہت بڑی آسانی کا سبب بنے گا، عوام کو تبدیلی ہوتی ہوئی نظر آئے گی کرپشن اور رشوت کے دو بڑے ادارے واپڈا کی تقسیم کار کمپنیاں اور گیس کمپنی بھی رشوت اور کرپشن کے معاملے میں کسی سے کم نہیں۔ چھوٹی چھوٹی اصلاحات کرتے رہیں ان کے مجموعی اثرات قابل فخر ہوں گے اس طرح کے جو چھوٹے چھوٹے کام ہیں جن کے کرنے سے عوام میں آپ کی عزت اور شہرت میں اضافہ ہوگا راقم ان کاموں کی نشاندہی کرتا رہے گا۔


.
تازہ ترین