• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پش اپس کا سلسلہ بھی عجیب ہے کہ اس میں سے رانا افضل اور چوہدری نذیر نے جمہوریت کے لئے ’’خطرناکی‘‘ ڈھونڈ لی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے ایک اجلاس میں رانا صاحب (جن کی بیگم بھی ایم پی اے ہیں) کو پش اپس جمہوریت کے لئے خطرہ محسوس ہونے لگے۔ دراصل رانا صاحب کو کرکٹ ٹیم کی سفید وردی خاکی نظر آرہی ہے۔ پچھلے دنوں بھی انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں ملکی سالمیت کے حوالے سے اسی قسم کا بیان دیا تھا۔ ابھی ابھی مجھے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما علی زیدی نے صدر اوباما کی ایک تصویر بھیجی ہے۔ اس تصویر میں امریکی صدر پش اپس کا مظاہرہ کر رہے ہیں، علی زیدی نے تصویر کے ساتھ کیپشن بھی بھیجا ہے کہ ’’...امریکہ میں جمہوریت خطرے میں...‘‘کراچی کے علی زیدی گرو آدمی ہیں، وہ تبصرے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
رانا افضل نے اسلام آباد میں بے تکی بات کی تو مسلم لیگ ایم پی اے رانا لیاقت نے جرمنی میں چاند چڑھا دیا۔ فرینکفرٹ میں پنجاب اسمبلی کے مسلم لیگی رکن رانا لیاقت نے مسلم لیگ ن جرمنی کے صدر کے ہمراہ مسلم لیگ ن جرمنی کے سرپرست اعلیٰ بزرگ رہنما شفیق چوہدری پر تشدد کیا، یہ واقعہ پاکستانی قونصل خانے میں اس وقت پیش آیا جب جرمنی میں قونصل جنرل ندیم احمد نے کشمیر ریلی کے سلسلے میں پاکستانی کمیونٹی کا اجلاس بلایا ہوا تھا۔
اِدھر فیصل آباد میں آصف نامی نوجوان قتل ہو گیا ہے، اس کے ورثا کا الزام ہے کہ ’’...ہمارے بیٹے کو رانا ثناء اللہ نے قتل کروایا ہے کیونکہ ہم نے الیکشن میں عابد شیر علی کی سپورٹ کی تھی...‘‘
پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت کے سربراہ کو کینیڈین حکومت نے ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اہم سیاسی جماعت کے سربراہ نے لندن سے ویزہ اپلائی کیا تھا جہاں کینیڈین سفارتخانے کا یہ موقف سامنے آیا کہ ’’...آپ اپنے ملک سے ویزہ اپلائی کریں...‘‘ اپنے ملک سے وہ کیسے اپلائی کریں، ان کا اپنے ملک میں آنا ذرا مشکل ہے، وہ اینٹیں لینے گئے تھے، انہیں ابھی تک ڈھنگ کی اینٹیں نہیں ملیں۔ ان کی پارٹی نے اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک سے بھی کوشش کی مگر اس کوشش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے ابھی تک اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ سچ پوچھئے تو میرا دل بہت دکھی ہے، مجھے سانحۂ کوئٹہ نے دکھی کر کے رکھ دیا ہے۔ مجھے اپنے سیاستدانوں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ پورے ملک میں آپریشن نہیں کرنے دیتے، اپنی فوج کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں یہ طے ہوا تھا کہ ہر جگہ آپریشن ہو گا مگر پھر اس حوالے سے حیلے بہانے بنا کر آپریشن کو ابھی تک ٹالا جا رہا ہے۔ کوئٹہ میں شہید ہونے والے نوجوانوں کا رتبہ بڑا بلند ہے، انہوں نے اس پاک دھرتی کی محبت میں جانیں دیں، اس سانحے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، ٹریننگ ختم ہونے کے بعد جوانوں کو کیوں بلایا گیا، وہاں ناقص سیکورٹی کیوں تھی؟ ان سوالوں کے جواب کمیٹی کے سامنے آ جائیں گے۔ ویسے تو ہمارے ہاں کمیٹیاں ’’مٹی پائو‘‘ پالیسی کے تحت بنائی جاتی ہیں۔ خدائے لم یزل میرے دیس کو حادثات سے پاک رکھے۔ جس روز کوئٹہ میں شہدائے پولیس کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی، نماز جنازہ کے بعد عوام سے محبت کے سب دعویدار چلے گئے مگر اکیلا سپہ سالار لواحقین کی طرف گیا، گلے لگ کر تسلی دیتا رہا، کسی نے کہا کہ میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے تو کسی نے کہا میرا بھائی چلا گیا ہے، دل ہلا دینے والے یہ جملے سن کر سپہ سالار بولا کہ ’’...میں بھی ایک شہید کا بھائی ہوں، مجھے یہ دکھ اچھی طرح معلوم ہے، ہم اِن شاء اللہ دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے...‘‘ شہداء کی دور افتادہ علاقوں میں لاشیں پہنچانے کا کوئی بندوبست نہ دیکھ کر آرمی چیف رنجیدہ ہوئے اور پھر انہوں نے سی 130کے علاوہ ہیلی کاپٹرز کا انتظام کروایا۔
دو نومبر کی آمد سے پہلے ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے جیسے پانی پت کی آخری لڑائی ہونے والی ہو۔ عمران خان کی بائولنگ عروج پر ہے، وہ روزانہ کوئی نہ کوئی بائونسر ایسا مارتے ہیں کہ مخالفین منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں، مخالفین رات بھر جاگ کر اگلے دن کی تیاری کرتے ہیں مگر اگلے دن خان صاحب ایک نئی طرز سے بال پھینکتے ہیں مثلاً انہوں نے کہا کہ ’’...جب بھی حکومت کے خلاف احتجاج کا مرحلہ آتا ہے تو اُس سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور ہو جاتا ہے...‘‘ اس کی وضاحتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ انہوں نے میاں شہباز شریف کی مبینہ کرپشن فرنٹ مین سمیت پیش کر دی۔ جواب آں غزل کے طور پر میاں شہباز شریف نے نہ صرف پریس کانفرنس کی بلکہ 26ارب کے ہرجانے کا دعویٰ کرنے کی نوید بھی سنا دی۔ اس کے بعد پتہ چلا کہ علیم خان، میاں شہباز شریف پر 30ارب روپے کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کریں گے، اُدھر جہانگیر ترین کہہ رہے ہیں کہ ’’...پہلے میرے دس ارب روپے کے ہرجانے کا جواب تو دے دیں...‘‘
ایک اور نوجوان سیاستدان ایک ٹی وی پروگرام میں فرما رہے تھے کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے چند محکموں میں 36کروڑ کے گھپلے سامنے آئے ہیں، اس کا بھی حساب ہونا چاہئے۔ ویسے ایک حکومتی کارندے نے یہ رپورٹ برے دل کے ساتھ پیش کی ہے کہ ’’...عمران خان پر ایک پیسے کی کرپشن کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوئی، ہم نے چھاننی کے ساتھ بڑی چھان بین کی ہے مگر کچھ بھی نہیں نکلا... ‘‘
اسحاق ڈار آج کل آئی ایم ایف کی خاتون ڈائریکٹر کو برا بھلا کہہ رہے ہوں گے کہ جاتے جاتے کیا کہہ گئی ہو۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کریسٹین لیگارڈ جاتے جاتے کہہ گئیں کہ ’’...کرپشن کا علاج شفافیت اور احتساب ہے، پامانا لیکس ہو یا کچھ اور ہو، سچ سامنے آنا چاہئے...‘‘ ڈار صاحب نے خود کو درویش صفت مشہور کر رکھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کابینہ اجلاس کے دوران انہوں نے بھی وہی کام کیا تھا جو رحمٰن ملک نے کیا تھا۔ رحمٰن ملک چالاک نہیں تھے اس لئے ریکارڈنگ باہر آگئی۔ ڈار صاحب سیانے آدمی ہیں، انہوں نے اُدھر ہی کوئی ’’دم‘‘ پڑھ دیا تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ پاکستان 19کھرب ڈالر کا مقروب ہو گیا ہے، اسی سے ترقی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے پر قرضہ 180ارب ہو گیا ہے۔ ریلوے کا خسارہ بھی اربوں میں ہے۔ اِدھر دعوے پہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے ’’اصولی موقف‘‘ کے بعد سراج الحق کا کہنا ہے کہ عمران کے پیچھے فوج نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب کو پلی بارگین سے منع کر دیا ہے، ایسے کیسوں کی تفصیل بھی حاصل کر لی ہے، اس میں بڑی تعداد سول بیورو کریٹس کی شامل ہے اور وہ اب بھی مختلف عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ اب ان کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں، کچھ نیب افسران بھی پریشان ہو گئے ہیں، ویسے ان کے حوالے سے مجھے عبیر ابوذری مرحوم کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے کہ ؎
لے کے رشوت پھس گیا ہے
دے کے رشوت چھوٹ جا


.
تازہ ترین