• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدارتی انتخابات، ایک ہی پارٹی کے دو امیدواروں کا مقابلہ

بتایا گیا ہے کہ آج امریکہ میں ایک خاتون اور ایک مرد کے درمیان صدارتی انتخاب مسکراتے اور سنجیدہ چہروں والے دو ایسے امیدواروں میں ہونے جارہا ہے جو ایک دوسرے سے مخالفت سے زیادہ موافقت رکھتے ہیں اور یہ فیصلہ بقول منیر نیازی مرحوم ؎گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کے بعد کیا ہوگاان دونوں میں سے دائیں بازو کی جانب لڑھکنے والے نظریات کی تقلید کا مظاہرہ کس نے زیادہ کیا ہے؟یہ بھی بتایا گیا ہے کہ8نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم جتنی خلفشار سے بھرپور رہی ہے اتنی ہی امریکی شہریوں کے لئے بے معنی اورمایوس کن ہوگی۔ امریکہ کی مروجہ سیاست اور خصوصاً صدارتی امیدواروں کے درمیان چنائو کبھی اتنا مشکل نہیں تھا امریکی حکمرانی کی یہ سیاست امریکہ کے محنت کش عوام کو ایک بند گلی میں لے آئی ہے جس کو مسمار کرنے کے بغیر ان کے پاس سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ یا امکان نہیں ہے۔ مفکر اور بائیں بازو کے مصنف وڈال گورکا نے کئی دہائیاں پہلے کہا تھا کہ ’’امریکہ کی سیاست پر صرف ایک پارٹی حاوی ہے اور یہ جائیداد اور دولت کی پارٹی ہے۔ یوں سمجھیں دوسروں والا ایک سانپ ہے جس کے دائیں سر کا نام ری پبلکن او ربائیں سر کا نام ڈیموکریٹ ہے۔‘‘ایک صدارتی امیدوار ڈونلڈز ٹرمپ ایک پراپرٹی ٹائیکون ہیں جنہوں نے کاروباری سٹے بازی کے ذریعے ربوں ڈالرز کمائے ہیں لیکن یہ امر حیران کن ہے کہ امریکہ کے اس انتہائی امیر سیاستدان سے حکمران طبقے خوفزدہ ہیں، کیونکہ وہ دولت کمانے کی دوڑ میں اتنے آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں کہ ریاستی پابندیوں کو بھی پائوں تلے رونددیں گے جس سےسرمایہ داری نظام کا یہ قبضہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ڈونلڈز ٹرمپ کی جنسی ہوس پرستی کےسرعام مظاہروں اورہسپانوی اور سیاہ فاموں کے بارے میں نفرت اور مسلمانوں کےخلاف ان کے بیانات پرامریکی سامراج کا منافقانہ واویلا ٹرمپ کی شکست کا سبب بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کی نام نہاد امن پسند پالیسیاں بھی امریکی حکمرانوں کو پسند نہیں آسکتیں۔دوسری جانب سابق امریکی صدر کلنٹن کی زوجہ ہیلری کلنٹن محض امریکہ ہی نہیں پوری دنیا کی بودزواری کی صدارتی امیدوار ہیں۔امریکی اجارہ داریوں کے ڈالروں کی حمایت سے اگر وہ جیت جائیں گی تو ان سرمایہ دار دھڑوں کی نمائندگی ہی کریں گی۔ ان کی پالیسیاں معاشی، مالیاتی اور عسکری حوالوں سے جارحانہ، جنگ پسندوں اور عوام الناس کے لئے مزیدمشکلات پیدا کرنے والی ہوں گی لیکن اگر سنجیدہ معیشت دانوں کے تجزیوں پر غور کیا جائے تو صدر ہیلری کی پالیسیوں سے امریکی سامراجی سلطنت کے معاشی اور عسکری زوال کا عمل تیز تر ہو جائے گا۔آخری تجزیے میں کوئی جیتے یا ہارے امریکی انتخابات میں جیت وال سٹریٹ ہی کی ہوتی ہے۔ درحقیقت امریکہ کے عام لوگوں کے ووٹوں کی گنتی سے صدر کا انتخاب نہیں ہوگا۔ صدارتی کامیابی کا فیصلہ تقریباً پانچ سو افراد پر مشتمل الیکٹرول کالج کرے گا جس میں 270 کی حمایت پانے والا دنیا کی اکلوتی اور نامہ نہاد سپرپاور کا سربراہ بنے گا یا بنے گی۔ امریکہ نے رنگ دار امریکی صدر کا تجربہ بھی کرلیا اب خاتون صدر کی حکمرانی کے تجربے سے گزرنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔امریکی صدارتی انتخابات کے امیدواروں میں ایک برنی سینڈوز بھی ہیں جنہوں نےاکیسویں صدی عیسوی میں سوشلزم کا نام لے کر امریکی معاشرے میں سوشلزم کے تقریباً بھول جانے والے لفظ اور نظریے کو دوبارہ متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ سوشلزم کا ذکر امریکی معاشرے میں انتہائی تضحیک آمیز سمجھا جاتا ہے مگر یہ برنی سینڈوز کی جرأت اور ہمت ہے سوشلسٹ اور مارکسٹ نہ ہوتے ہوئے بھی سوشلزم کے نام پر ’’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان سیاست میں اترے ہیں اور کامیابی کی امید نہ رکھتے ہوئے بھی اپنے نعرے کو مقبول بنانا چاہتے ہیں۔



.
تازہ ترین