• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک کالم لکھنے کا میں تقریباً دو مہینوں سے سے سوچ رہا ہوں۔ ہر روز سوچتا ہوں کہ لکھوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ ہمارے اعلیٰ افسران اور حاکمین کرام کیا سوچیں گے کہ کیسی معمولی باتوں پر کالم لکھے جارہے ہیں جب کہ اصل مسائل امریکہ کے صدارتی انتخابات سے برآمد ہورہے ہیں یا وزیراعظم اور ان کے بچوں کی کفالت کے پرابلم سے تعلق رکھتے ہیں مگر میں جس کالم کے لکھنے کا سوچتا ہوں وہ لاہور کے علاقہ چوبرجی سے گزرنے والی ٹرین کے لئے تعمیر کئے جانے والے میناروں کی وجہ سے ادھڑ جانے والی سڑکوں کی حالت زار ہے جہاں سے لاہور کے ٹائون شپ کی آبادیوں کی کم از کم بیس ہزار گاڑیاں روزانہ گزرتی ہیں اور مجوزہ ریل گاڑیوں کے لئے بنائے گئے ستون عدالت عالیہ کے سامنے کٹہرے میں ملزموں کی صورت پریشان کھڑے ہیں اور ان کے درمیان سے گزرنے والی ٹریفک اپنی سواریوں کے مجسموں کو کچھ اس انداز میں اچھالتے اور جھنجھوڑتے ہیں جیسے نمکین ڈولے کے اندر جامن کو اچھالا جاتا ہے بعض لوگ اس سڑک کوہاضمہ روڈ کا نام بھی دیتے ہیں کہ جہاں سے گزرنے والوں کا لکڑی اور پتھر کا ہاضمہ بھی درست ہوسکتا ہے۔لاہور شہر میں ٹرین چلانے کے اس منصوبے یا پروگرام کے تحت دیگر بہت سے علاقوں میں کسی حد تک قابل سفر سڑکیں استوار کی گئی ہیں مگر مغل شہزادی زیب النسا مخفی کے باغ کے اس دروازے (چوبرجی) سے گزرنے والوں میں شاید ایسی کوئی شخصیت شامل نہیں ہوگی کہ جس کی سفر کی سہولت ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہو یا یہاں سے ہمارے سرکردہ وزیروں کو گزرنے کی آزمائش پیش آتی ہو۔ ٹرین کی اس گزرگاہ کی تعمیر کا کام اگر کسی ٹھیکیدار کے ذمے ہے اور وہ ٹھیکہ دار کسی اعلیٰ مقتدر سیاست دان کا قریبی عزیز نہیں ہے تو اس گزرگاہ کو اس ٹھیکہ دار کے ذریعہ بھی کسی حد تک قابل سفر بنایا جاسکتا ہے۔صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ چوبرجی سے گزرنے والے لاہور کے شہر اپنی گاڑیوں کو معمول سے زیادہ اچھلتے دیکھ کر حکومت کی طرف سے شہریوں کو فراہم کی جانے والی سفر کی اس سہولت کے بارے میں کیسے جذبات کا اظہار کرتے ہوں گے مگر یقینی طور پر یہ اظہار اس سہولت کے حق میں نہیں ہوگا۔ جانتا ہوں کہ ہمارے وہ پس ماندگان جن کو اس شہری ریلوے پر سفر کرنے کی سہولت نصیب ہوگی اس سہولت کی تعریف کریں گے اور یقینی طور پر یہ سہولت چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ بھی بن جائے گی مگر اس ٹرین کے چلنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جانے والے جس آزمائش سے گزر رہے ہیں ان کی زندگی مشکل ترین آزمائشوں میں شمار کی جاسکے گی یہاں سے گزرنے کے تلخ تجربے اور آزمائش سے گزرنے والے شاید یہ دعا بھی مانگیں کہ کبھی وزیراعلیٰ خادم پنجاب میاں شہباز شریف یا ان کے صاحب زادے حمزہ شہباز کو بھی یہاں سے گزرنے کی ضرورت پیش آئے اور اس تجربے کے بعد یہاں سے گزرنے والے دیگر شہریوں پر بھی رحم فرمانے کا خیال آئے۔


.
تازہ ترین