• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میرا پسندیدہ ترین ملک ہے اور ترک مجھے کسی محبوب کی طرح عزیز ہیں میں پہلی بار 1970میں ترکی گیا تھا اور وہاں دو ہفتے قیام کیا تھا، استنبول مجھے اپنے خوابوں کا نگر محسوس ہوا اور اتنے برس گزرنے کے بعد آج بھی جب کبھی ترکی جانے کا موقع ملتا ہے اور استنبول میں قیام کرتا ہوں تو دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔ یہاں ہر طرف تاریخ بکھری پڑی ہے۔ سلطنت عثمانیہ اور اس کی عظمت رفتہ کی تاریخ! پھر زوال کا عمل شروع ہو ااور ایک وقت آیا کہ عظیم سلطنت ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی، ان لمحوں میں کمال اتاترک سامنے آئے اور انہوں نے موجودہ ترکی پر اپنی عملداری قائم کی، اتاترک نے مایوس ہوتی قوم میں ایک نیا ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے خیال میں اس قوم کا دوبارہ عروج مذہب کو ریاست سے الگ کرنے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ ممکن ہے اس دور کے مذہبی پیشوائوں نے اسلام کی ایسی ہی تشریح پیش کی ہو، جو تشریح آج پیش کی جا رہی ہے اور جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمان منہ چھپاتے پھر رہے ہیں تاہم کمال اتاترک کا ردعمل بھی اتنا مثبت نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا، انہوں نے سیکولر ازم کو لادینیت کی صورت میں نافذ کیا مگر ترکوں کے اندر اسلام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اسے ترکوں سے نکالنا ممکن نہیں تھا، چنانچہ اس عمل کے خلاف آوازیں اٹھتی رہیں اور ترکی کے ایک وزیر اعظم عدنان مندریس کو اسی جرم کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی ۔ مگر پھر حالات بدلتے چلے گئے اور طیب ایردوان کی موجودہ حکومت ترکی کے مسلمانوں کی اسی اسلام دوستی کی ایک کڑی ہے۔ موجودہ حکومت بھی سیکولر ازم کی علمبردار ہے مگر اس کے سیکولر ازم کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ ہر کسی کو اپنے مذہب اور اپنی روایات کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینا ہے۔ اب ترکی میں مسجد یں بھی آباد ہیں اور میخانے بھی تاہم طیب ایردوان کی حکومت کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی وجہ ملکی اقتصادیات میں بہتری لانا ہے، چنانچہ یورپ کا یہ ’’مرد بیمار‘‘ مسلسل ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی معیت میں میری ملاقات صدر طیب ایردوان سے انقرہ میں ہوئی تھی۔ اپنی ملائم گفتگو اور پرتپاک میزبانی کے سبب وہ مجھے اس وقت بھی اچھے لگے تھے اور گزشتہ روز جب ایک دوست نے ان کے ایک جلسے میں کی گئی تقریر مجھے بھیجی تو مجھے یہ حکمران کچھ کچھ شاعر بھی لگا۔ اچھے وقتوں کے خواب دیکھنے والا ایک شاعر! آپ بھی میری اس لذت میں شریک ہوں جو میں نے اس نظم نما تقریر سے کشید کی۔ اس کے ساتھ ہی آپ سے اجازت!
اے میری پیاری قوم
اے میری محبوب قوم
زمین پر میرے مقصد کو طول نہ دو
کیا ملک کے پرندے تمہیں کوئی خبر نہیں سناتے
یہاں تمہارے شہداء کی قبروں سے بہار امڈ رہی ہے
جب محبوب کا ساتھ ہو تو بے جان انسان سے بھی محبت پھوٹتی ہے
اس طرح جیسے زندگی اور موت کے درمیان ایک منفرد زندگی!
میں تم سے مایوس نہیں ہوں
لیکن ایک شیطانی آنکھ ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہے۔
ہمیں پھربھی یہاں محبتوں بھرے گیت گانے ہیں
ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہمارے مدمقابل کیا کرتے ہیں
کیونکہ کچھ چیزیں آسمان کی طرف سے طے شدہ ہیں
کیا ہوتا ہے جب دن ڈھل جاتا ہے ؟
کوئی تو ہے جو رات گزارنے کے سبب پیدا کرتا ہے
ممکن ہے کہ میں اس راستے میں خاکستر ہوجائوں
لیکن میری خاک سے کامرانی کے قلعے تعمیر ہوں گے
کیونکہ ہر شکست کے بعد ایک فتح ہے
تمہارے پاس ہر راز تک پہنچنے کی کنجی موجود ہے
وہ تمہارے دل کی پکار ہے
جو تمہیں تمہارے ماضی کی طرف بلاتی ہے
میں کبھی تم لوگوں سے مایوس نہیں ہوا ہوں
کیونکہ تمہارے دلوں میں جذبوں کا ایک طوفان ہے
اے میری پیاری قوم
مجھے سب سے زیادہ محبوب اے میری محبوب قوم
میں تمام تعریفیں رب کے لئے خالص کرتا ہوں
میں حمد بیان کرتا ہوں اس رب کی
جس نے اس دور میں ہمیں اپنے مقصد کے لئے چنا
جس نے ہمیں حوصلہ اور جوش عطاء کیا
جس نے ہمیں صبر کی تعلیم دی
مزاحمت کا حوصلہ عطاء کیا
تعریف اس کیلئے جس نے ہمیں خوبصورت اقدار بخشیں
جس نے ہمارے دلوں میں محبت بھر دی
اس ملت اور ملک کی بہتر خدمت کا موقع اور جذبہ دیا
میں اس اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تعریفوں کا رخ موڑتا ہوں
یہ جو کچھ میں نے بیان کیا وہ اس وجہ سے ہمیں اس سے محبت کرنا چاہئے
ہم سب کو اسی کی پیروی کرنا چاہئے ،وہ سب لوگ
جو اس ہال میں موجود ہیں یا باہر سڑک پر دور تک بیٹھے ہیں
کہ دل کی گہرائیوں سے اس کی بہت زیادہ حمد بیان ہو جائے

.
تازہ ترین