• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ، مظہر عباس)آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو کراچی آپریشن کی کامیابی اور کمزوریوں کا تازہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ خامیوں کو صحیح نقطہ نظر سے دور نہ کیا تو نقصان ہوسکتا ہے۔ صورت حال بڑی حد تک قابو میں ہے مگر ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائم کے واقعات ہورہے ہیں، جن سے نمٹنے کےلیے سیکورٹی اداروں نے حکمت عملی نہیں بنائی۔ آپریشن سے بنیادی مسائل تاحال حل نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے حکومت اور فوج کو مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ بعض اعلیٰ حکام نے کچی آباد یو ں میں کالعدم تنظیموں کے سلیپر سیلز کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ خراب تفتیش، استغاثہ اور سیاسی تعصب کی وجہ سے حکومت، پولیس، رینجرز اور اپیکس کمیٹی کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ سب سے بڑا اسلحہ برآمدگی کیس، را سے مبینہ تعلق رکھنے والے دو ایم کیو ایم کارکنوں کی بریت، ڈاکٹر عاصم حسین کی جے آئی ٹی، چائنا کٹنگ کی تحقیقات کے لیے 15 ہزار سے زیادہ فائلوں کی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ضبطی میں جو کچھ ہوا وہ آپریشنل ناکامیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ تین سال میں 16 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کے سوا زیادہ تر کو چھوڑ دیا گیا، جن کی اکثریت کا تعلق ایم کیو ایم گینگ وار اور کالعدم تنظیموں سے ہے، ان کے کیسز کا کیا ہوا۔ حکام کو ایم کیو ایم کی عسکری ونگ کے را سے تعلق کا یقین ہے مگر کیسز میں شواہد نہ ہونے پر پیش رفت کوئی نہیں۔ ان ناکامیوں سے آپریشن بدنام ہوا، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے خلاف بس میڈیا میں شور شرابا ہوا۔ کراچی آپریشن کی سیاسی جہت بھی ہے، کیونکہ سیکورٹی اداروں کو دہشتگردی اور سیاست میں تعلق کا شبہ ہے، مگر ثبوت پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ دراصل سپریم کورٹ کا کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ کراچی آپریشن کی وجہ بنا۔ بہت لیت و لعل کے بعد باالاخر رینجرز کو پولیس کے اختیارات دیے گئے، مگر تحفظ پاکستان آرڈیننس ختم ہوتے ہی 90 روز تک مشتبہ افراد کو حراست میں رکھنے کے اختیارات ختم ہوگئے۔ نائن زیرو ایم کیو ایم اور بلاول ہاؤس پی پی پی کی علامت ہے۔ حکام نے نائن زیرو کا تعلق ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے بتایا تو بلاول ہاؤس کو دہشت گردی کی فنڈنگ میں ملوث قرار دیا، جس کی وجہ سے وفاقی حکومت و سندھ حکومت اور پی پی پی و اسٹیشلشمنٹ میں کشیدگی پیدا ہوتی رہی۔ وفاقی و صوبائی اپیکس کمیٹیوں کے متعدد اجلاس کے باوجود مسئلہ حل نہ ہوا۔ تاحال حکومت شکایت ازالہ کمیٹی بنانے میں ناکام ہے۔ اسلحہ برآمدگی کیس میں پولیس کی ناکامی پر وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی خاموشی حیران کن ہے۔ وزیراعلی سے لے کر گورنر تک سب نے پولیس کے لیے انعام کا اعلان کیا جو شرمندگی کا باعث بن گیا۔ وزیراعلی کم از کم اس اسلحے کی ایم کیو ایم سے تعلق کا دعوہ کرنے والی ٹیم ہی معطل کردیتے۔ امجد صابری کیس تعلق بھی پہلے ایم کیو ایم سے جوڑا گیا مگر بعد میں کالعدم تنظیموں کے دو مشتبہ افراد پکڑے گئے۔ اب دیکھیں فشری سے اسلحہ اسمگلنگ اور دہشتگردی کی فنڈنگ کے کیس کا کیا نتیجہ آتا ہے۔  فشرمین سوسائٹی کے سربراہ نثار مورائی سمیت متعدد حکام کو گرفتار کیا گیا، بعد میں نثار مورائی ضمانت پر رہائی کے بعد پھر گرفتار ہوگئے۔ مگر سمندر سے اسلحہ اسمگلنگ اور اربوں روپے کے کیس کا کیا ہوا۔ عزیر بلوچ کے کیس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ عزیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم، ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے ایک ملزم کے اعترافی بیا نا ت کی ویڈیوز جاری ہوئیں۔ ڈاکٹر عاصم کیس پر سندھ اور وفاق اور رینجرز میں کشیدگی پیدا ہوئی، انہیں مظلوم بنایا گیا مگر رینجرز کے نزدیک وہ جیٹ بلیک دہشت گرد ہیں۔ بعض سابق پولیس حکام کے مطابق ایک ہی آدمی پر ڈھیروں کیس بنانا تفتیش میں پولیس کی ناکامی کی وجہ ہے، اسے ایک دو کیسز میں ہی سنجیدگی سے تفتیش کرنی چاہیے تھی، جس میں ملزم واقعی ملوث تھا۔ دوسرا پولیس اور رینجرز سیاسی جماعتوں کے نام لے کر کیسز کو سیاست زدہ کرنا بند کریں۔ لہذا اب وفاقی حکومت، سندھ حکومت، رینجرز اور پولیس پچھلے تین سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف پر مشتمل ایپکس کمیٹی کراچی میں ایک دو دن گزار کر آپریشن کی کامیابی کے باوجود اس کی غلطیوں کا جائزہ لیں۔
تازہ ترین