• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک کی 17؍نومبر 2016کو جاری کردہ 2015-16کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں صوبوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن کے تحت قابل تقسیم پول سے ملنے والی رقوم پوری طرح خرچ نہ کریں بلکہ مالیاتی فاضل رقوم ظاہر کریں تاکہ مجموعی مالیاتی خسارہ قابو میں رکھا جا سکے۔ صوبوں کا مالیاتی فاضل رقوم ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وفاق اور چاروں صوبوں کا اس بات پر عملاً گٹھ جوڑ ہے کہ ٹیکسوں کا منصفانہ نظام وضع کرنے، ٹیکسوں کی چوری روکنے، معیشت کو دستاویزی بنانے اور شاہانہ اخراجات میں کمی کرنے کے بجائے تعلیم، صحت اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اخراجات کم سطح پر رکھے جائیں اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔ جس دن 2009میں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان ہوا تھا اسی روز ہم نے سرکاری ٹیلی وژن چینل پر عرض کیا تھا کہ یہ ایوارڈ معاشی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف سیاسی بنیاد پر ہے چنانچہ اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔
معیشت کو تیزی سے ترقی دینے اور مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کا دانش مندانہ طریقہ یہ ہے کہ وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس نافذ اور وصول کریں، غیر پیداواری اخراجات میں کمی کریں اور قرضوں پر انحصار بڑھانے کے بجائے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور سرمایہ کاری کی شرحیں بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ ان اقدامات سے طاقتور اشرافیہ کے ناجائز مفادات متّاثر ہوتے ہیں چنانچہ موجودہ حکومت کے دور میں یہ تباہ کن پالیسی اپنائی گئی کہ (i) ٹیکس چوری ہونے دیجائے مگر ودھ ہولڈنگ ٹیکس کے نظام کو وسعت دی جائے۔ (ii)ٹیکس کے سالانہ گوشوارے داخل کرانے اور نہ کرانے والوں (فائلر اور نان فائلرز) کے ’’نظام‘‘ کو تسلیم کرتے ہوئے نان فائلرز سے تھوڑی سی قیمت طلب کی جائے لیکن ان کو بدستور یہ اجازت دی جائے کہ وہ کروڑوں روپے کی غیر منقولہ جائیدادیں خریدتے رہیں اور دوسرا کاروبار کرتے رہیں (iii)شرح سود میں تیزی سے کمی کی جائے تاکہ داخلی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں کم رقوم درکار ہو۔ 2014-15میں ٹیکس آمدنی کا 50فیصد سود کی ادائیگی پر خرچ کیا گیا تھا جبکہ 2015-16میں حکومت نے صرف 41فیصد اس مد میں خرچ کیا۔ شرح سود میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمی کرتے چلے جانے کے نتیجے میں گزشتہ ساڑھے 3برسوں میں بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں اور قومی بچت اسکیموں میں جمع کرانے والے لاکھوں افراد کو کم منافع ملتا رہا جس سے انہیں کئی سو ارب روپے کا نقصان صرف اسی مدّت میں ہو چکا ہے (iv)صوبے زرعی شعبے، خدمات اور غیر منقولہ جائیداد سیکٹر کو مؤثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانے کے عزم سے دستبردار ہی رہیں (v)قومی تعلیمی پالیسی 2009سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے چاروں صوبے اور وفاق تعلیم کی اہمیت کو کم کر کے 2015اور 2016میں کم رقوم مختص کریں (vi) عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل نہ کیا جائے تاکہ وفاق اور صوبوں کی جانب سے طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں دی جانے والی چھوٹ و مراعات اور بڑے پیمانے پر ٹیکسوں کی چوری ہونے دینے کے نقصانات کو پورا کیا جائے۔ زرعی شعبے کی جی ڈی پی کا حجم 7041ارب روپے ہے مگر چاروں صوبوں نے مجموعی طور پر زرعی انکم ٹیکس کی مد میں 2016میں صرف 1900ملین روپے وصول کئے یعنی زرعی انکم ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب صرف 0.028فیصد بنتا ہے۔ (vii)وفاقی حکومت توانائی کے شعبے میں دی جانے والی زر رعایت میں زبردست کمی کرے چنانچہ صنعتی و تجارتی صارفین کیلئے بجلی و گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے کو آئی ایم ایف کی آشیرباد بھی حاصل تھی۔
وفاق اور چاروں صوبوں کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت کئے گئے مندرجہ بالا 7فیصلوں کے تباہ کن اثرات آنے والے برسوں میں زیادہ واضح طور پر نظر آئیں گے۔ مختلف سیاسی پارٹیاں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر زبردست تنقید کرتی رہتی ہیں مگر عملاً وفاق اور چاروں صوبوں میں ان غیر دانش مندانہ پالیسیوں کے ضمن میں اتفاق رائے موجود ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر صوبے ہر قسم کی آمدنی بہ شمول زراعت، خدمات اور غیر منقولہ جائیداد سیکٹر پر مؤثر طور سے ٹیکس نافذ اور وصول کرتے اور غیر منقولہ جائیداد کے ضمن میں ڈپٹی کلکٹرریٹ کو مارکیٹ کے نرخ پر لے آتے تو پچھلے ساڑھے تین برسوں میں وفاق کو عوام پر نت نئے ٹیکس لگانے، بجلی و گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانے، ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجراء کرنے، شرح سود میں کمی کراتے چلے جانے، منفعت بخش اداروں کے اپنے حصص فروخت کرنے، سماجی شعبے میں کم رقوم مختص کرنے، مہنگی شرح سود پر بیرونی قرضے لینے، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے اہم اداروں کی تنظیم نو کو پس پشت ڈالنے جیسے تباہ کن معاشی فیصلوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ وفاق اور چاروں صوبوں نے گٹھ جوڑ کر کے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے ٹیکسوں کے شعبے میں اصلاحات لانے کے بجائے فیصلہ کیا کہ قومی پالیسی 2009(جس کی توثیق موجودہ حکومت نے بھی جون 2013میں کی تھی) پر عملدرآمد نہیں کیا جائے گا۔ وفاق اور چاروں صوبوں نے 2015اور 2016میں اس قومی پالیسی کے تحت جو رقوم تعلیم کی مد میں مختص کرنی تھیں ان میں تقریباً 2700ارب روپے کی کٹوتی کی۔ یہ بات اس لئے بھی تکلیف دہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 29؍مارچ 2014کو کہا تھا کہ ہمارے لئے تعلیم صرف ترجیح کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کا مستقبل بھی تعلیم سے وابستہ ہے۔
پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے سے حکومت کو سنہری موقع ملا ہے کہ پاکستان خود مختلف شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر کے اس زبردست منصوبے سے پاکستان کی قسمت بدلنے کا خواب پورا کر سکے۔ بدقسمتی سے اس ضمن میں اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ چین کا نجی شعبہ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس سرمایہ کاری پر منافع کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اگلے چند برسوں میں چین اس منافع کو زر مبادلہ کی شکل میں اپنے ملک لے جائے گا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس پروجیکٹ کے تحت پاکستان کو بڑے پیمانے پر درآمدات کرنا ہوں گی۔ ان دونوں عوامل سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر زبردست دبائو پڑے گا۔ اس زبردست چیلنج سے نمٹنے کیلئے مؤثر حکمت عملی اپنانے کے بجائے حکمرانوں نے شتر مرغ کا انداز اپنایا ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس ضمن میں منصوبہ بندی کرنے کے ساتھ حکومت چین سے درخواست کی جائے کہ توانائی کے شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں سے 10ارب ڈالر بھاشا ڈیم وغیرہ کیلئے مختص کرے۔

.
تازہ ترین