• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نشے توسب مہلک ہیں مگر اقتدار کا خمار انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔مقبولیت کی اشتہا ،ناموری کا جنون اور چاہے جانے کی احتیاج کرسی چھوڑنے نہیں دیتی ۔ایسے میں اگر ـ’’راگ درباری‘‘ کی دھن پرگائے جارہے ’’ابھی نہ جائو‘‘ کے گیت بھی کیف ومستی کو دو آتشہ کرتے ہوں تو بھری محفل چھوڑکر جانا کہاں ممکن ہوتا ہے۔ہاں مگر راحیل شریف اس کشمکش میں سرخرو ٹھہرے اور حریصان ِمیکدے کی توقعات کے برعکس وہ جام وسبو چھوڑ کر چل دیئے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔قیاس آرائیاں یہ تھیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر قومی منظر نامہ پر جلوہ افروز ہونگے اور اس مرتبہ ایک سیاسی مدبر اور رہنما کی حیثیت سے پذیرائی پائیں گے۔میری توقع مگر یہ تھی کہ اس حریفانہ کشمکش سے نجات پانے والا شخص شوقِ کمال اور خوفِ زوال سے بے نیاز ہو چکا توایسے کسی فیصلے سے اپنا دامن گرد آلود ہرگز نہ کرے گا۔ابھی نئے آرمی چیف کے محاسن اور اوصاف ِجمیلہ بیان کرنے کا سلسلہ تھما نہ تھا کہ راحیل شریف کا نام نامی ایک مرتبہ پھر گونج اٹھا اور ان افواہوں نے خبر کا روپ دھار لیا کہ خادم الحرمین الشریفین نے جناب نواز شریف کو اعتماد میں لیکر راحیل شریف کو 39اسلامی ممالک کی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا ہے۔
دنیا بھر میں یہ رجحان موجود ہے کہ بیشتر فوجی افسران عسکری فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد یکسر ریٹائرنہیں ہوتے اور ملک وقوم کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں تو جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد تھنک ٹینک چلاتے ہیں ،دفاعی اداروں میں لیکچر دیتے ہیں یا پھر وزارت دفاع کا حصہ بن جاتے ہیں مگر جنوبی ایشیا ء میں فوجی افسر ایک مخصوص مدت کے بعد عملی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور منتخب عوامی نمائندے قرار پاتے ہیں۔مثال کے طور پر جنرل وجے کمار سنگھ جو بھارتی فوج کے 24ویں آرمی چیف تھے ،انہوں نے 31مئی 2012ء کو بھارتی سپہ سالار کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد یکم مارچ 2013ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 2014ء کے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگرس کے امیدوار اداکار راج ببر کو بہت بڑے مارجن سے شکست دیکر لوک سبھا کے رکن منتخب ہو گئے۔اترپردیش کے حلقہ غازی آباد کی اس نشست سے راج ببر تین مرتبہ رُکن پارلیمنٹ منتخب ہو چکے تھے مگر اس مرتبہ ایک سابق آرمی چیف نے انہیں شکست دیدی۔جنرل جے جے سنگھ جو بھارتی فوج کے پہلے سکھ آرمی چیف تھے اور جنوری2005ء سے ستمبر2007ء تک بھارتی فوج کے سربراہ رہے انہوں نے دو دن قبل یعنی 7جنوری 2017ء کو شیرومنی اکالی دل میں شمولیت اختیار کی ہے اور اب 4 فروری کو ہونے والے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں پٹیالہ سے کانگریسی رہنما امریندر سنگھ کے خلاف امیدوار ہونگے۔اسی طرح سری لنکا کے سابق آرمی چیف جنرل ساراتھ فونیسکا جنہوں نے تامل بغاوت کا سرکچل کر اپنے ملک میں امن بحال کیا ،انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی بنائی اور انتخابات میں حصہ لیا۔اگست 2015 ءکو ہونیوالے انتخابات میں ان کی پارٹی تو کامیاب نہ ہو سکی البتہ مفتوح یونائیٹڈ نیشنل پارٹی نے حکومت بنانے کے بعد انکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ،مخصوص نشستوں پر نامزد کر کے نہ صرف انہیں پارلیمنٹ کا حصہ بنادیا بلکہ کابینہ میں بھی شامل کر لیا۔مگر یہ دنیا کا انوکھا واقعہ اور منفرد مثال ہے کہ ایک ملک کے فوجی سربراہ نے ریٹائرمنٹ کے فوری بعد ہی کسی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کر لی۔اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا نے ایک عرب ملک کے مشیر کا عہدہ قبول کر کے یہ طرح ڈالی تھی مگر جنرل راحیل شریف نے تو سب قاعدے قانون ہی بدل ڈالے۔
سعودی عرب کے تناظر میں دیکھا جائے تو راحیل شریف ہی اس فوجی اتحاد کی سربراہی کے لئے موزوں ترین شخص ہیں کیونکہ ان ممالک کے آپس کے اختلافات کے باعث ایسا کمانڈر انچیف درکار تھا جس کا تعلق پاکستان سے ہو اور جو سب کیلئےقابل قبول اور غیر متنازع ہو مگر ہمارے قومی مفادات کے پیش نظر یہ فیصلہ درست نہیں۔ اس نئی سپہ سالاری پرتکنیکی اعتراضات تو بہت ہیں اور ان کی تفصیل میں جائے بغیر محض ان سوالات تک ہی مرکوز رہا جائے جن کاتعلق مضمرات سے ہے تو مستقبل کی ہولناکیوں کا تصور کر کے دماغ مائوف ہونے لگتا ہے۔ معاملہ محض سعودی عرب کے دفاع کا نہیں ہے۔ اسلامی فوج کے نام پر ایک ایسا عسکری اتحاد تشکیل دیا گیا ہے جس پر ایک مخصوص مسلک کی چھاپ ہے،جس کے اغراض و مقاصد سے علاقائی رقابت کی بو آتی ہے ۔خطے میں بالادستی کی وہ جنگ جس میں ہماری پارلیمنٹ نے فوج کو نہ جھونکنے کا فیصلہ کیا ،اس کی سربراہی کا ڈھول افواج پاکستان کے مقبول ترین سابق سربراہ کے گلے میں ڈالنا کیسے قابل ستائش ہو سکتا ہے؟اگر مستقبل میں ایران ،لبنان ،عراق ،شام اور یمن جیسے ممالک بھی صف آرا ہونے کا فیصلہ کریں اور اس اسلامی فوج کی سربراہی افواج پاکستان کے کسی ریٹائرڈ جرنیل کے سپرد کر دی جائے توہمارا کیا بنے گا؟اگر افواج پاکستان جیسے منظم ادارے میں مسلک کی بنیاد پر دراڑیں پڑ گئیں تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ یہ اسی نوعیت کی فاش غلطی ہے جس طرح کا بلنڈر ضیاء الحق سے سرزد ہوا ۔جب روس کے خلاف نبرد آزما جنگجو لائو لشکر کے ساتھ واپس لوٹے تو اپنی ’’مجاہدانہ عِلت‘‘ کے باعث پاکستان پر ہی حملہ آور ہو گئے اور یوں گلی محلے میں محاذ جنگ کھل گئے۔اب جب راحیل شریف کی سربراہی میں یہ اسلامی فوج یمن میں حوثیوں پر یلغار کرے گی یا پھر شام میں بشار الاسد کی فوج کو پسپا کرکے فتح کا جھنڈا لہرائے گی تو عراق سے شام اور یمن تک پھیلے ہوئے یہ جنگجو خفت مٹانے کے لئے پاکستان کا رُخ کریں گے اور ہمیں ایک دریا کے پار اترنے کے بعد دوسرے دریا نہیں بلکہ سمندر کا سامنا ہو گا۔تعجب تو ہوتا ہے اور کیسے نہ ہو۔راحیل شریف ایک بڑی آزمائش اور امتحان میں سرخرو ٹھہرے مگر نسبتاً چھوٹی کسوٹی میں ہار گئے۔قوم نے دنیا جہان کی محبتیں اور عقیدتیں ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیں ۔خدا نہ جانے وہ شوقِ کمال سے مغلوب ہوئے یا خوفِ زوال سے قدم ڈگمگائے ۔البتہ عساکر پاکستان کے مقبول ترین سپہ سالار کی اس نئی چاکری پر ایک تحریف شدہ مصرعہ باربار نوک ِقلم پر اُمڈ رہا ہے:
اور راحیل چاہئیں کتنی محبتیں تجھے


.
تازہ ترین