• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمان خودکشی کی طرف جارہے ہیں، بہترین راستہ خود احتسابی ہے،غامدی

کراچی(ٹی وی رپورٹ)مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے بہترین راستہ خود احتسابی کاہے،مسلمان خودکشی کی طرف جارہے ہیں، ہمیں علم اور تعمیر کا راستہ اختیار کرنا چاہئے،انتہا پسندی کی ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، ہمیں اپنے جرائم کی سزا مل رہی ہے، میں نے بتایا ہے کہ موسیقی کے بارے میں روایات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔مسلمانوں کیلئے ترکی اور ملائیشیا کسی حد تک رول ماڈل ثابت ہوسکتے ہیں،نہ خود مسٹر بننا چاہتا ہوں اور نہ کسی عالم کو مسٹر بنانا چاہتا ہوں، میری اور فتح اللہ گولن کی فکر میں کوئی مماثلت نہیں ہے،دین کو ہر آمیزش سے پاک کر کے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں،کبھی جہاد کا انکار نہیں کیا ہے،جہاد کرنا گروہوں کا کام نہیں اس کیلئے منظم ریاست اورامام کی ضرورت ہے، کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے کہ ان کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جائے،مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سیاسی جدوجہد کرنی چاہئے، جب میں نے محسوس کیا کہ میری وجہ سے دوسروں کی جانوں کو خطرہ ہے تو ہجرت کی،مغرب مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ سوچ کی مخالفت کررہا ہے،دنیا کو سرحدیں ختم کر کے عالمی حکومت کی طرف بڑھنا چاہئے تھا،اقوام متحدہ کی صورت میں ایک نیم عالمی حکومت قائم ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جاویداحمد غامدی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی اپنے نام کے ساتھ علامہ نہیں لگایا ہے، میں خود کو علامہ نہیں بلکہ طالب علم سمجھتا ہوں، علامہ اقبال بہت سے علوم میں مجتہد کا درجہ رکھتے تھے، میں نے دینی اور دنیاوی دونوں نظامہائے تعلیم میں پڑھا ہے، درس نظامی اور دیگر علوم کے ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کی ہے، نہ خود مسٹر بننا چاہتا ہوں اور نہ کسی عالم کو مسٹر بنانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دین کو ہر آمیزش سے پاک کر کے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں، دین میں کوئی نئی بات نہیں نکالی بلکہ دین کو اصل صورت میں پیش کررہا ہوں، دین کو اسی صورت میں سامنے آنا چاہئے جس طرح رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا، میری اور فتح اللہ گولن کی فکر میں کوئی مماثلت نہیں ہے،میرا اصول یہی ہے کہ عبادت صرف اللہ کی اور عقیدت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوگی، ہر مکتبہ فکر کے علماء اور آئمہ کو اپنا سمجھتا ہوں اور سب کا یکساں احترام کرتا ہوں، مولانا مودودی میرے ممدوح و مخدوم ہیں۔جاوید غامدی کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی کسی ناجائز چیز کو جائز قرار نہیں دیا،میں نے بتایا ہے کہ موسیقی کے بارے میں روایات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے، قرآن مجید نے حلال و حرام کے بارے میں جو قاعدہ مقرر کیا ہے اس کا اطلاق اس پر نہیں کیا جاسکتا، تمام فنون لطیفہ اپنی اصل میں اللہ کی نعمت ہیں ان کا استعمال صحیح یا غلط ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی جہاد کا انکار نہیں کیا ہے، جہاد ہماری شریعت کے احکام میں سے ایک حکم ہے، ظلم کے خلاف جہاد کا حکم اللہ نے دیا ہے، جہاد کیلئے ایک منظم ریاست اور امام کی ضرورت ہے، کسی اقتدار کے زیرسایہ جہاد کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، جہاد کرنا گروہوں کا کام نہیں ہے۔جاوید غامدی کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے کہ ان کو آزادانہ حق رائے دہی دیا جائے، اگر کوئی قوم علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہے تو اس حق کا کسی کوا نکار نہیں کرنا چاہئے، مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سیاسی جدوجہد کرنی چاہئے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ مسلمان قوم اللہ سے وفاداری کا حق ادا کررہی ہو اور اللہ کے قانون کے مطابق علم و اخلاق کے حوالے سے برتری پر ہو اور پھر کوئی قوم اسے محکوم بنالے۔ انہوں نے کہا کہ جب میں نے محسوس کیا کہ میری وجہ سے دوسروں کی جانوں کو خطرہ ہے تو ہجرت کی ، میں نے ہجرت کیلئے مسلمان ملک کا انتخاب کیا، پاکستان کی شہریت چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں اختیار کروں گا،میں نے شعور کی آنکھ مولانا مودودی کے زیراثر کھولی تھی، امین احسن اصلاحی میرے جلیل القدر استاد تھے،جماعت اسلامی والوں کو اپنی برادری سمجھتا اور ان سے محبت کرتا ہوں۔ جاوید احمد غامدی کا کہنا تھا کہ انتہاپسندی ہمارے خطے سے مشرقی وسطیٰ میں منتقل ہورہی ہے، پوری دنیا میں انتہاپسندی کی سوچ فروغ پارہی ہے، القاعدہ کی جگہ داعش لیتی جارہی ہے، افغان طالبان نے خود کو ایک خطے تک محدود رکھا لیکن داعش کی سوچ عالمی ہے، مشرق وسطیٰ میں محاذ گرم ہونے کی وجہ سے ہمیں وقتی نوعیت کا ریلیف ملا ہے،انتہاپسندی کے ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، ہمیں اپنے جرائم کی سزا مل رہی ہے، داعش مزید مضبوط ہوئی تو اس کیخلاف عالمی سطح پر اتحاد قائم ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب مسلمانوں کے خلاف ٹرمپ سوچ کی مخالفت کررہا ہے، اگر مغرب میں دہشتگردی کے واقعات جاری رہے تو رویے تبدیل ہوسکتے ہیں، اسلام اور مغرب کی لڑائی عروج پر جارہی ہے، دنیا کو سرحدیں ختم کر کے عالمی حکومت کی طرف بڑھنا چاہئے تھا، اقوام متحدہ کی صورت میں ایک نیم عالمی حکومت قائم ہے، اقوام متحدہ کی پانچ بڑی ویٹوپاورز نے اس نظم کو سنبھال رکھا ہے۔جاوید احمد غامدی نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے بہترین راستہ خود احتسابی کا ہے، مسلمانوں کو جائزہ لینا ہوگا وہ دنیا کی دوسری قوموں سے کیوں پیچھے رہ گئے ہیں، مسلمان علم و اخلاق کے لحاظ سے پست ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین