• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نوازشریف کا جنون‘خطرناک مجرموں کا جلد از جلدانصاف کرنا

اسلام آباد(طارق بٹ)خصوصی عدالتوں کے حوالے سےوزیر اعظم نواز شریف کے آزمودہ جنون کی وجہ سے تاکہ خطرناک مجرموں کا جلد از جلد انصا ف کیاجاسکے، وفاقی حکومت تمام قانونی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اگر فوجی عدالتوں سے متعلق کسی پارلیمانی اتفاق رائے پر نہ پہنچاجاسکے توبنیادی مقاصد ضرور حاصل کرلیے جائیں۔اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا بیان کہ دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث افرا د کے لیے علیحدہ علیحدہ قوانین بنائے جارہے ہیں۔یہ ایک واضح نقطہ ہے جس کے تحت ٹرائل چلائے جائے گے۔وہ اور ان کی وزارت دہشت گردی میں ملوث افراد کے مقدمات میں انصاف فراہم کرنے کے لیےتیز ترین طریقہ کار متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔یہاں تک کہ جب فوجی عدالتیں 2 سال تک کام کررہی تھیں تب بھی وزارت داخلہ دیگر حکام بشمول صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھیجی گئی سفارشات کی جانچ پڑتال اور ان کا انتخاب کرنے میں مصروف تھی۔کابینہ کے ایک سینئر رکن نے دی نیوز کو بتایا کہ پہلے مرحلے میںحکومتی کوشش یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے اختیارات بڑھانے کے لیےکیے گئے معاہدے پرجو کہ 7 جنوری کو21ویں آئینی ترمیم کے کارآمد ہونے کے سبب ختم ہوچکا ہے۔اب اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے تاکہ تمام سویلین دہشت گردوںکے مقدمات کی سماعت ہوسکے۔تاہم انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اہم سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کی مخالفت کے سبب بہت مشکل ہے کہ ’’جیٹ بلیک‘‘ دہشت گردوں کے مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں کرنے کے حوالے سے کسی متفقہ نتیجے پر پہنچا جاسکے۔پیپلز پارٹی، جےیوآئی(ف) اور جماعت اسلامی فوجی عدالتوں کے اختیارات میں توسیع کی سخت مخالفت کررہی ہیں  اور اس حوالے سے مستقل مہم چلارہی ہیں۔انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے اس سے پیش رفت ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔حکومت کامسئلہ یہ ہے کہ وہ اس حیثیت میں نہیں ہے کہ تن تنہا آئینی ترمیم کرکےفوجی اختیارات میں توسیع کرے کیوں کہ اس کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔یہاں تک کہ اگرو ہ مشکلات کے باوجود قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل بھی کرلیتی ہے تب بھی اس کے پاس سینیٹ میں اکثریت نہیں ہے، جہاں حزب مخالف پیپلز پارٹی کا کنٹرول ہے، جو کسی بھی طرح حکومت سے تعاون کرتی نظر نہیں آرہی۔تاہم وہ باآسانی انسداد دہشت گردی قانون (اے ٹی اے) میں ترمیم کرسکتے ہیں یا کوئی اور عام قانون سازی کرسکتے ہیں تاکہ اسے بذریعہ آرڈیننس لاگو کیا جاسکے۔جسے بعد ازاں پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکے۔وہ قومی اسمبلی کے ذریعے ایسا کرسکتے ہیں تاہم سینیٹ میں ایسا کرنا ان کےلیے ممکن نہیں۔فوجی عدالتوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی پالیسی اور نقطہ نظر کے تناظر میںمتبادل کے طور پر حکومت دیگرطریقوں پر غور کررہی ہے۔فوجی عدالتوں کے اختیارات ختم ہوتے ہی وہاں جاری تمام مقدمات فوری طور پر انسداد دہشت گردی عدالتوں میں منتقل ہوگئے، جہاں انصاف کی فراہمی کی رفتار اتنی تیز نہیں ہےجیسا کہ فوجی افسران کی قیادت میں بنائے گئے فورم میں تھی۔وزیر اعظم نواز شریف نے 1997 میں اپنے دوسرے دور حکومت میں  اے ٹی اے متعارف کروایا تھا، جو آج بھی قابل عمل ہے۔اس میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی رہی تاکہ مجرم قانون کے شکنجے سے باہر نہ نکل سکیں۔نواز شریف حکومت نے فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی اجازت بھی اس لیے دی تھی تاکہ سخت مجرموںکے مقدمات جلد نمٹائے جاسکیں۔ان کی ترجیحات دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم اس طرح کے مجرموں کے مقدمات کی تیزی سے سماعت کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔اے ٹی آے کے نفاذ کے بعد سےمتعدد شکایتیں موصول ہوچکی ہیں کہ اسےبااثر افراد  غلط طریقے سے استعمال کرکے اپنے حریفوں کے خلاف پولیس میں مقدمات درج کراسکتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ ان مقدمات میں اے ٹی اے کی شقیں شامل کروادیتے تھے ، جب کہ اس میں اس کا قانونی جواز بھی نہیں ہوتا تھا۔البتہ مجموعی طور پرانسداد دہشت گردی عدالتوں نے تیزی سے خطرناک مجرموں کو سزائیں دلوائیں، جو کہ عام عدالتوں سے بہت بہتر تھا۔اس کے باوجود فوجی عدالتوں کے مقابلے میں یہ سست رفتار ہی ہے۔انسداد دہشت گردی عدالتوں سے فیصلہ ہوجانے کے باوجود ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے سبب فیصلہ آنے میں سالوں لگ جاتے ہیں، جس سے اس قانون کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتا ہے، جو کہ یہ ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ تیزی سے ہوجائے۔تاہم، فوجی عدالتوں میں فیصلہ ہوجانے کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جاسکتی ۔البتہ فیصلوں کو حکم امتناعی کی پٹیشن کے ذریعےہائی کورٹ میںچیلنج کیا جاسکتا ہے۔اس طرح کی بہت سی درخواستیں مختلف ہائی کورٹس میںزیر التواء ہیں۔
تازہ ترین